Tuesday 26 December 2017

گول گپے والی

جہد مسلسل اور ہمت و حوصلے سے آگے بڑھنے کی لگن ہی میں انسانی زندگی کی بقاء کا راز مضمر ہے ۔ورنہ زندگی جمور کا شکار ہو کر اس ٹھہرے پانی کی مانند ہو جاتی ہے۔ جو لوگوں کے لیے تعفن اور بدبو کا باعث بنتا ہے جب کہ ہمت و حوصلے سے گزاری جانے والی زندگی اس رواں پانی کی مانند ہوتی جو دوسروں کے لیے راحت اور زندگی کی نوید ہوتاہے۔ ایسی ہی جواں ہمت محنتی اور سفید پوش خاتون سلمٰی ہے جس کی پیدائش ایک سفید پوش غریب گھرانے میں ہوئی تھی۔ لیکن مجبوریوں نے اُسے سڑک پر لا کھڑا کیا اپنا اور اپنی بچیوں کا پیٹ پالنے کے لیے وہ آج سڑک پر گول گپے کی ریڑھی لگاتی ہے۔ تایا کے گھر بیاہی جانے والی سلمٰی ، جھنگ سے اپنی تین بچیوں اور شوہر کے ساتھ ، اپنا 5 مرلے کا ذاتی گھر چھوڑ کر، لاہور جیسے بڑے شہر میں رہنے پر اس لیے مجبور ہے کہ شوہر کے بڑے بھائی نے مار پیٹ کر کے زبردستی گھر پر قبضہ کرنے کی کوشش کی ۔ سلمٰی کے شوہر نے مکان کا یہ حصّہ اپنے بھائی سے خریدا تھا۔لیکن وہ اس کی رجسٹری نہ کرا سکے۔بدنیت بھائی نے مکان دوبارہ ہتھیانا چاہااور نہ دینے پر اس نے سلمٰی کے شوہر کو مار ا پیٹا۔ سلمٰی اوران کی بچیوں کو کمرے میں کئی دن تک بند رکھا ۔ آخر کار سلمٰی کے ماں باپ نے اُسے کچھ پیسے دیے کہ وہ اپنے حصّے کی طرف دیوار کھڑی کر لے ۔لیکن جیسے ہی ایک دن وہ کسی رشتہ دار سے ملنے گئے تو واپسی پہ انھیں دروازے ٹوٹے ہوئے ملے اور گھر میں موجود زیورات اور قیمتی سامان حتیٰ کہ برتن تک چوری ہو چکے تھے۔ پویس تھانوں سے مایوس ہوکر مجبوراً اُنھوں نے اپنا گھر چھوڑ دیا ۔ اور لاہور کا رخ کیا۔ بچیوں کی تعلیم بھی منقطع ہو گئی۔ سلمٰی کا شوہر مُحمد عمر اِس سے قبل دال چاول کی ریڑھی لگاتا تھا۔ لاہور آکر بھی وہ کچھ عرصہ تو کام کرتا رہا۔ لیکن پھرکام چھوڑ کر گھر بیٹھ گیا۔ حتٰی کہ گھر میں فاقوں کی نوبت آگئی۔ اورایک دن دوبارہ ریڑھی لگانے کے لیے سودا لینے کاکہہ کر گیا اور واپس نہیں آیا۔ سلمٰی نے اُسے تلاش کرنے کی بہت کوشش کی لیکن آخرہمت ہارگئی ۔ وہ کہتی ہے، ” کیا کروں اُسے ڈھونڈکر جس کے ہونے نہ ہونے کا کوئی فائدہ نہیں؟ اس وقت میرے لیے صرف یہ بات اہم ہے کہ کسی طرح محنت کر کے اپنی بچیوں کو چھت اور دو وقت کی روٹی دے سکوں۔” ابتد اء میں سلمٰی کے والدین اور بہن بھائیوں نے اس کی کافی امداد کی مگرجس صاحب حیثیت بھائی کے بل بوتے پرسلمٰی کے گھر کا چولھا جل رہا تھا ،کے انتقال کے بعد مشکلات بڑھ گئیں۔ ” اتنی مہنگائی میں کوئی کب تک کسی کا بوجھ اُٹھا سکتا ہے۔ ہر انسان کو اپنے لیے خود ہی کچھ نہ کچھ کرنا پڑتا ہے۔بس یہی سوچ کر میں نے بھی ہمت کی۔” خودار اور محنتی سلمٰی کا پہلے ایک پیزا (Pizza) بنانے والی عورت کے ہاتھوں استحصال ہوتا رہا۔ سلمٰی سے فی پیزا کمیشن طے ہونے کے باوجوداُسے وہ اُجرت نہ ملی جس کی وہ حق دار تھی۔ لیکن سلمٰی نے ہمت نہ ہاری اور اپنا کام کرنے کا سوچ لیا۔پہلے بریانی بنا کر لوگوں کے گھروں اور دُکانوں میں سپلائی شروع کی۔ وہ علیٰ البصح اُٹھ کر بریانی تیار کرتی۔۔۔۔ اور میلوں پیدل چلتی۔۔۔۔۔یہ سوچ کر کہ وہ سب کچھ اپنی بچیوں کی خاطر کر رہی ہے، اس کی ہمت بندھی رہتی۔ لیکن گذشتہ سال ڈینگی بخار سلمٰی کے صبر کا ایک اور امتحان ثابت ہوا۔ بیماری نے جسم میں نقاہت پیدا کر دی۔ اب اس میں لمبے لمبے سفر کرنے کی سکت نہ رہی تھی۔ ایک بار پھر بہن بھائیوں کے در پر دستک دی تاکہ کچھ پیسے ادھارپکڑ کر کچھ اور کام کر سکے۔ سلمٰی گول گپے بنانا جانتی تھی۔ اس لیے گول گپے کی ریڑھی کا سوچ کرایک بارپھر ہمت کر لی۔ سچ ہے کہ خدا بھی انھی کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں۔ ایک خدا ترس شخص نے سلمٰی کو اپنی فالتو ریڑھی بغیر کسی معاوضے کے استعمال کے لیے دے دی کہ جب وہ اپنی ذاتی ریڑھی خرید لے تو اُس کی ریڑھی واپس کردے۔ اب سلمٰی گول گپے بنانے کی تیاری کے لیے صبح چار بجے اُٹھتی ہے۔ اور دن کے دو اڑھائی بجے تک اپنی گول گپے کی ریڑھی سجا کر ایک نئے عزم کے ساتھ نکلتی ہے۔لیکن کمزور ہونے کی وجہ سے وہ ذیادہ دور تک نہیں جاسکتی۔ گھر کے آس پاس ہی ایک درخت کے نیچے جہاں بجلی کا کھمبا بھی ہے ریڑھی لگا بیٹھتی ہیتاکہ دِن میں چھاؤں اوررات میں روشنی ملتی رہے۔۔۔ اور اگر بارش ہو جائے تو ریڑھی پر پلاسٹک کی چادر ڈال کر خود وہیں کسی درخت یا دیوار کی اوڑھ میں بھیگتی رہتی ہے۔ ۔۔۔ “کبھی بچیوں کی وجہ سے جلدی گھرجانا پڑ جائے تو کچھ خدا ترس لوگ ہیں جو ریڑھی اپنے احاطے کھڑی کر لیتے ہیں۔ لیکن اُسی محلّے کے کچھ لوگ تنگ بھی کرتے ہیں۔کہتے ہیں کہ ہمارے گھروں میں بیٹیاں ہیں اور یہاں قسم قسم کے لوگ اکٹھے ہوتے ہیں۔ رات دیر تک اس خوف سے نیند نہیں آتی کہ کل اگر کسی نے ریڑھی نہ لگانے دی توکہاں جاؤں گی؟ میں کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتی۔ لیکن کیا میں عزت سے چار پیسے کمانے کی بھی حق دار نہیں ؟دُنیا کا عجیب دستور ہے ۔ جو عورت ہاتھ پھیلاتی ہے اُسے دھتکارتے ہیں۔ لیکن جو محنت کرتی ہے ،اُسے کام نہیں کرنے دیتے۔” پہ در پہ مشکلات اور بیماری نے سلمٰی کے جسم میں نقاہت ضرور پیدا کر دی ہے مگر اُس کے حوصلے مضبوط ہیں۔ بیٹیوں کو پڑھانے کی حیثیت نہیں ، لیکن اراد ہ ضرور رکھتی ہے۔ بڑی بیٹی آ ٹھویں سے آگے پڑھ تو نہیں سکی مگر اب سلائی کڑھائی سیکھ رہی ہے تاکہ اپنی ماں کا ہاتھ بٹا سکے ۔ سلمٰی خود بھی بہت اچھی سلائی کڑھائی کر لیتی ہے۔ لیکن ابھی وہ اتنے پیسے نہیں جو ڑ سکی کہ سلائی مشین لے سکے ۔ اُس کے گھر میں ایک کارپیٹ (carpet)کا ٹکڑا ،ایک چارپائی ، پنکھااور استعمال کے چند برتن ہیں اوروہ بھی لوگوں کے دیے ہوئے ہیں۔ ڈیڑھ سو سے ڈھائی سو روپے دیہاڑی کمانے والی سلمٰی چار ہزار ماہوار مکان کا کرایہ اور دو ہزار بجلی اور گیس کا بل بھی دیتی ہے ۔جب کہ گھر میں ایک پنکھے اور ایک بلب کے سوا کچھ نہیں ہے۔ “میری بچیاں پڑھنا چاہتی ہیں ۔ کہتی ہیں پڑھ لکھ کر جہاز میں بیٹھ کر باہر جائیں گی۔ خواہشیں تو میری بھی ہیں۔۔۔۔ دل تو میرا بھی چاہتا ہے کہ اچھے صاف ستھرے کپڑے پہن کر گھر میںآرام کروں ۔ لیکن اب مجھے اپنا نہیں اپنی بچیوں کا سوچنا ہے ۔کاش میری بیٹیاں پڑھ لکھ کر کسی لائق بن جائیں تاکہ انہیں میری طرح گلیوں میں نہ پھرنا پڑے ۔میں رات رات بھر ان کے مستقبل کا سوچتی رہتی ہوں” سلمٰی کے لفظوں کی سچائی اُس کی آنکھوں سے جھلکتی ہے۔اُس کی اپنی خواہشیں اور تمنائیں کو کہیں بہت پیچھے رہ گئی ہیں۔ اب وہ صرف اپنی بیٹیوں کے لیے جی رہی ہے۔ پر ماں کی طرح وہ بھی اپنی بیٹیوں کو خوش اور کامیاب دیکھنا چاہتی ہے۔ اور ان کے لیے ایک ایسی زندگی کی متمنی ،جہاں وہ کسی کی محتاج نہ ہوں۔!!!

No comments:

Post a Comment

SHARE YOUR STORIES ON EMAIL
HELP5294@GMAIL.COM
WE WIL POST IT SOON