Sunday 30 July 2017

اور پھر دوستی ہار گئی

(Abdul Kabeer, Okara) دوستی اور محبت بھی کمال کی ہوتی ہیں ۔لیکن محبت جیت ہی جاتی ہے خواہ جھوٹی کیوں نہ ہو مگر دوستی سچ کا دامن پکڑ کر بھی ہار جاتی ہے۔ "آپ پہ بہت یقین تھا۔ لیکن مجھے کیا پتہ تھا آپ ہی میری جڑیں کاٹنے والے ہوں گے۔ آپ نے پہلے مجھے سیڑھی پر چڑھایا اور پھر سیڑھی کھینچ لی۔ مجھے آپ پر یہ امید نہیں تھی۔ آپ نے کا ش میرا ایک راز تو رکھ لیا ہوتا۔ اگر میں آپ کو نہیں اچھا لگتا تھا تو آپ ایک دفعہ تو کہہ دیتے کہ ہمارے دروازے پر نہ آیا کرو کیونکہ ہمارے گھر والوں کو اچھا نہیں لگتا یا مجھے اچھا نہیں لگتا۔ اگر وہ آپ کے خلاف کوئی بات کرتی تھی تو میں اس سے جھگڑ پڑتا تھا۔ آپ کو کیا پتہ میں اسے کتنا پیار کرتاتھا۔ میں نے سمجھا کہ میرے گھر والوں نے مجھ سے دھوکہ کیا لیکن مجھے کیا پتہ تھا اصل دھوکہ تو آپ نے میرے ساتھ کیا۔" ٭٭٭ بھائی جی! کیا حا ل ہے؟دوست نے رکشے سے اترتے ہوئے سلام کے بعد میرا حال چال پوچھا۔یار دیکھنا کہ اس کا کیا میسج آیا ہے۔ بھائی جی! پلیز کسی طرح ٹانگہ سڑک پر چڑھا دو۔ بھائی جی!کوئی ایسا جادو کر دو کہ میری اس کے ساتھ سیٹنگ ہو جائے۔ دوست نے حال چال پوچھنے کے بعد میرے آگے اپنی گزارشات رکھی۔ میرا دوست جو کچھ زیادہ پڑھا لکھا نہیں تھا۔ گھر میں بھائیوں میں سےسب سے چھوٹا تھا۔ شروع سے ہی بڑے بھائی نے اس کھیتی باڑی اور گائے، بھینسوں کی رکھوالی کے لیے منتخب کیا ہوا تھا۔ اس کے بقول بڑے بھائی نے اسے نہ کوئی دوست بنانے دیا اور نہ کوئی کھیل کا شوق پالنے دیا۔ لیکن اب بہت ہو گیا، میری بھی اپنی زندگی ہے، میرا بھی اپنی زندگی پہ کوئی حق ہے۔ لہذا فائنل بات یہ ہے کہ میں نے بھی کسی سے دوستی کرنی ہے۔ یہاں جس کو دیکھ لو، کان کو موبائل لگایا ہوتا ہے اور اپنی "دوست" سے بات کر رہا ہوتا ہے۔ بھائی جی!(آپا ایڈے ہی ماڑے ہاں،اپنی ایڈی ہی قسمت خراب ہے کہ کوئی آپا نوں لفٹ ہی نہ کرواوے گی)۔ میں نے اسے بہتیرا سمجھایا کہ یہ کچھ دن کی بات پھر دل لگی بن جاتی ہے اور پھر دل لگی دل کو لگ جاتی ہے۔ لیکن دوست جی! میں نہ مانوں کے تحت اپنی ضد پہ قائم رہے۔ تو دوست آخر دوست ہوتا ہے۔ اس نے کہا چلو ٹھیک ہے۔ ایک میسج آیا اور میں نے میسج کیا پھر ادھر سے میسج آیا۔ پھر باتوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ دونوں فریق کچھ زیادہ ایجوکیٹڈ نہیں تھے۔اس لیے بات چیت زیادہ کالز پر ہی ہوتی تھی۔ ٭٭٭ یار گھر والوں نے اچھا نہیں کیا، انہوں نے میری میڈم کو کال کی۔انہوں نے اس کے ساتھ بہت بدتمیزی کی۔ ان کو ذرا خیال نہیں آیا کہ میں اسے کتنا پسند کرتا ہوں ۔میری کتنی اس کے سا تھ دل لگی ہے۔لیکن میرے گھر والوں نے مجھے یقین دلا کے کہ ہم اس کے گھر رشتہ لے کر جائیں گے بعد میں چھری گھونپ دی۔ میں اپنی بہنوں کو کبھی معاف نہیں کرو گا۔انہوں نے اسے اتنی باتیں کی مجھے اتنا غصہ آ رہا تھا کہ جی کر رہا تھا کہ ان کو لائن میں کھڑا کرکے گولی مار دو۔یار آگے سے تمہاری میڈم نے بھی تو باتیں کی ہیں۔"اس نے کہا کہ تمہارے لڑکے کو آگ لگی ہے۔اگر تم ہمارے گھر رشتہ لیکر آؤ تو میں ہی انکار کر دو تو تمہارے گھر والوں کی کیا عزت رہے گی؟"لیکن میرے دوست اس عاشق کی طرح اپنی "میڈم" کی طرفداری کر رہے تھے، جس کے متعلق کچھ ہی دن پہلے میں نے کسی دانشور کا قول پڑھا تھا کہ جاہل اور عاشق کے ساتھ بحث کرنا فضول ہے کیونکہ دونوں کو اپنے اوپر بہت بھرم ہوتا ہے۔ ٭٭٭ یار پانچ دن ہو گئے ہیں یار اس کا کوئی میسج کال نہیں آئی ہے۔ میرا دوست بڑی پریشانی کے عالم میں مجھے بتا رہا تھا۔ یار اب دل بڑا بے چین سا رہتا ہے رات کو نیند نہیں آتی۔ بار بار موبائل چیک کرتا ہوں ۔ دل کہتا ہے کہ ابھی کا ل آئے گی، مگر انتظار کی گھڑیاں لمبی ہو جاتی ہیں مگر کال نہیں آتی ہے۔یار کچھ کرو یار اسے کوئی ایسا میسج کرو کہ کہ خود کال کرے۔ میں نے اس کا نمبر بہت دفعہ ٹرائی کیا ہے مگر اس کا نمبر آف جا رہا ہے۔ میں دوست کو بولا کہ یار پریشان نہ ہو کوئی بات نہیں ، ہو سکتا ہے اس کا موبائل خراب ہو یا کوئی اور مسئلہ ہو جس کی وجہ سے اس کا نمبر بند جا رہا ہے۔ نہیں یار میرا دل نہیں لگ رہا۔ ٭٭٭ کچھ دنوں بعد میرے دوست کو اس نے خود کا ل کی۔ دوست نے پوچھا کہ اتنے دن نمبر کیوں بند تھا تو وہ بولی کہ میں اپنی خالہ کے پاس گاؤں گئی ہوی تھی اور وہاں پہ سنگل نہیں آتے۔اس لیے میرا نمبر تھا۔ اچھا تو جانے سے پہلے کوئی میسج یا کال وغیرہ تو کر لیتی آپ؟وہ گھر والوں نے اچانک پروگرام بنایا تو ہم چلے آپ کو میسج یا کال کرنے کی فرست نہیں ملی۔ پھر باتیں ہوتی رہیں۔ میرے دوست کی ناراضگی اور غصہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔ ٭٭٭ یار آج میں نے اس سے ملنے جانا ہے ۔ یار آپ میرے ساتھ چلو اس کے لیے کچھ اچھے گفٹ خریدنے ہیں ۔ہم نے بازار کا رخ کیا ۔ گفٹ والی شاپ سے دوست نے اس کے لیے لاکٹ اور اور لائٹنگ والا روز خریدا۔ میں نے سوچا کہ پہلی دفعہ کسی کو ملنے جا رہا ہے کہیں کسی مشکل کا شکار نہ ہو جائے۔ اس لیے میں بھی اس کے ساتھ ہو لیا۔ میرا دوست مجھے پارک میں چھوڑ کر اسے لینے چلا گیا۔ اس نے پہلے بتایا کہ میں بازار میں ہو، حالانکہ وہ بازار نہیں تھی، پھر بتایا کہ میں مقررہ جگہ پر پہنچ گئی ہو حالانکہ وہاں اس نام و نشاں نہیں تھا۔ کافی دیر اس کی احمقانہ حرکتوں کی وجہ سے میرا دوست دھوپ میں کھڑا اس کے انتظار میں پسینے سے شرا بور ہو گیا تھا۔آخر کار وہ آ گئی اور میرے دوست صاحب اسے ساتھ لیے پارک کی طرف ہو لیے۔ اس دن پانچ گھنٹے میں بلافضول پارک میں بیٹھا رہا صرف اس وجہ سے کہ میرے دوست کو کوئی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ ایک گھنٹہ گزرا، پھر دوسرا ، پھر تیسرا لیکن میڈم جی باتیں ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ میں نے دوست جی کو بہت کالز کی اور چلو یار بہت ٹائم ہو گیا ہے ۔ لیکن وہ کہاں سننے والے تھے۔ ٭٭٭ یار تم نے جو کہا بالکل ٹھیک کہا۔ میں نے آپ کے ساتھ بالکل اچھا نہیں کیا۔ آپ مجھ پر اپنے آپ سے زیادہ یقین کرتے تھے۔ میری دوستی پر بہت مان تھا آپ کو۔ ہر بات مجھ سے شیئر کرتے تھے۔ میں نے مان لیا کہ کہ میں معافی کے قابل نہیں ہوں پر میں ایک سوال کا جواب آپ سے جاننا چاہتا ہوں۔پھر پتا چلے گا کہ آپ میرے ساتھ کتنے مخلص تھے۔ مجھ پر کتنا یقین کرتے تھے۔ ٭٭٭٭ اتفاق سے میری میڈم جی سے موبائل پر بات ہو گئی۔ خیر و عافیت پوچھنے کے بعد انہوں نے پوچھا کہ آپ کا دوست کیسا ہے؟ میں نے کہا آپ کیوں اسے لائک کرتی ہیں اگر مجھ سے ہی پوچھنا ہے تو؟نہیں ایسی بات نہیں ، میں آپ کو بعد میں بتاؤں گی کہ پہلے آپ بتاؤ؟ میں نے کہا وہ جیسا بھی ہے آپ کو پسند بہت کرتا ہے۔ میں نے اس سے پوچھا "اگر آپ دونوں کے گھر والوں میں سے کسی کے گھر والے نہیں مانتے تو آپ کا کیا ری ایکشن ہوگا؟کہتیں کہ میں تو صبر کر لوں گی۔ میں نے پوچھا اس کا کیا ہوگا؟اس کا پتہ نہیں کیا ہوگا۔پتہ نہیں آپ کا دوست کیسا ہے ، چھوٹی چھوٹی باتوں پر ناراض ہو جاتا ہے۔ میں تو بات کرتے ہوئی ڈرتی ہوں کہ کہیں وہ ناراض نہ ہو جائے۔ ابھی کچھ دن پہلے بھی ناراض ہو گیا تھا۔ ٭٭٭ تقریباً رات کے 12:30 پہ سنسان سڑک پر ایک لڑکا جس کی عمر تقریباً بیس سال ہو گی سائیکل بھگائے جا رہا تھا۔ اس نے سائیکل چلاتے ہوئے نمبر ڈائل کیا۔ رابطہ ہوا ، آگے سے بھرائی ہوئی آواز میں جواب جی بھائی جی! میں وہی ہوں۔ لڑکے نے رابطہ منقطع کر دیا اور سائیکل کی رفتار مزید بڑھا دی۔ وہ جلدی سے جلدی اپنی منزل تک پہنچنا چاہتا تھا۔ ٭٭٭ نہیں بھائی جی! نہیں ! آپ بالکل ٹھیک کہتے تھے۔ عشق ، پیار محبت میں کچھ نہیں رکھا۔ مجھے آپ کا کہنا مان لینا چاہیے تھا۔ میرا دوست روتے ہوئے اپنے دردِ دل سنا رہا تھا۔ اسے موبائل نہیں بند کرنا چاہیے تھا۔ مجھے پتہ ہے اس نے جان بوجھ کر بند کیا ہے۔ بس بھائی جی! سب کچھ ختم ہو گیا ہے۔ میں نے اسے سمجھایا کہ ہو سکتا ہے کہ اس کے موبائل کی بیٹری لو ہو گئی ہو یااس کے پاس سے کوئی گزرا ہو یا وہ اور کسی وجہ سے بات نہ جاری رکھ سکی ہو۔نہیں مجھے پتا ہے اس نے جان بوجھ کرکال بند کی ہے۔ میں نے اسے بعد میں کال کی تو اس کا نمبر آن تھا اس کونمبر پہ دو بیلز گئی اور پھر بعد میں اس کا نمبر مصروف ہو گیا۔اس کے دودون بعد عید کا دن تھا۔ میں اپنے دوست کی عید خراب نہیں دیکھنا چاہتا تھا۔ میں نے کہا کچھ نہیں ہوتا یا ر ، چلو اس سے غلطی ہو گئی ، معاف کردو یار۔ "یار میں نےنہیں معاف کرنااسے۔ آپ کیوں آئے ہو اس ٹائم ، دیکھو کتنی رات ہو گئی ہے"۔ میرا دوست الٹا مجھے جھاڑنا شروع ہو گیا تھا۔ ٭٭٭ رات کے ساڑھے بارہ بجے جو سنسان سڑک پہ سائیکل بھگا رہا تھا وہ کوئی اور نہیں بلکہ میں خود تھا۔ میرے دوست کے پاس بیلنس نہیں تھا اور میں نے کال کانفرنس کرکے اس کی میڈم کے ساتھ بات کروا رہا تھا۔ اچانک نا جانے کوئی بات ہوئی اوراس کی دوست نے کال بند کر دی۔ میں نے اپنے دوست کو بتایا کہ اس نے کال بند کر دی ہے۔ ساتھ ہی میرے دوست نے رابطہ منقطع کر دیا۔ میں نے اسے دوبارہ کال ملائی تو میرے کانوں نے ایسی آواز سنی کہ میرے ہوش خطا ہو گئے۔ ٭٭٭ اس کی اچانک کال بند ہو جانے کے تھوڑی دیر بعد اس کا نمبر آن ہو گیا تھا ۔ میں نے اسے کال کی اور اسے بتایا کہ آپ کے کال بند کرنے کی وجہ سے میرے دوست کی آنکھوں میں آنسو آگئے ہیں ۔ دو دن کے بعد عید ہے اور آپ ہو کہ اسے ناراض کر دیا ہے۔ وہ آپ کو بہت پسند کرتا ہے ،دن ہو یارات بس ہر وقت آپ کی باتیں کرتا رہتا ہے۔ آج میڈم سے یہ بات ہوئی ، آج وہ بات ہوئی، آج میری میڈم نے یہ والا کھانا کھایا، آج ہم کہاں ملے ، آج ہم نے اکھٹے بیٹھ کر یہ کھایا۔ اس نے کہا کہ میرے موبائل کی بیٹری لو ہو گئی تھی اور موبائل بند ہو گیا تھا۔ "یہ بات جھوٹ تھی"۔ لیکن میں نے یقین کر لیا اور اپنے دوست کو یہی بتایا کہ اس کے موبائل کی بیٹری لو ہو گئی تھی۔ لیکن عید کے کچھ دنوں بعد جب میری دوست کی میڈم(اس کی فرینڈ)نے میرے دوست کو اپنے بیش قیمتی آنسو بہا کر منا لیا اور تب بتایا کہ بیٹری لو نہیں ہوی تھی بلکہ اس نے خود موبائل بند کیا تھا۔ یعنی اس نے مجھ سے جھوٹ بولا تھا۔ حالانکہ میڈم کے قول کے مطابق کہ مجھے جھوٹ بولنے والے سے بہت نفرت ہے۔ ٭٭٭ میں نے جب دوبارہ کال کی تو میں نے اپنے دوست روتے ہوئے سنا۔ مجھ سے رہا نہ گیا ۔ آدھی رات کے وقت میں نے اپنا سائیکل نکالا اور اس کے گھر کی طرف روانہ ہو گیا۔ میں جانتا تھا کہ عشق کرنا بہت آسان ہوتا ہے لیکن جب اس میں اس میں ٹھوکر ملتی ہے تو انسان کو کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ اس کو ساری دنیا تاریک دکھائی دیتی ہے ۔جب عشق میں ٹھوکر ملتی ہے تو ایسے لگتا ہے کہ اچانک کسی نے اس کی آنکھوں کی چمک چھین لی ہے اور اسے کسی گھپ اندھیرے میں دکھیل دیا ہے۔ پھر انسان کو اللہ تعالی کی عطا کردہ بیش قیمت نعمت "زندگی" بھی بے کار لگتی ہے اور وہ سمجھتا ہے جب تک اس کا عشق اس کے ساتھ تھا تو زندگی تھی لیکن جب ٹھوکر لگی تو سب ختم ہو گیا۔اسے اب زندگی سے بھی نفرت ہو جاتی ہے۔ اس لیے میں اپنے دوست کی دلی کیفیت جانتا تھا اور اسے کوئی بھی غلط قدم اٹھانے سے باز رکھنا چاہتا تھا۔ مجھے پتہ تھا کہ ناراضگی کچھ دنوں تک ہوگی پھر صلح ہو جائے گی لیکن ان لمحوں میں دماغ کام کرنا بند کر دیتا ہے۔ دل انسان کو کہیں سے کہیں لے جاتا ہے۔ تو میں پہنچ گیا اپنے دوست کے پاس۔ اسے سمجھایا ،بولا کہ کچھ نہیں ہوتا ۔ نمبر ہی بند کیا نا،بہت ساری مجبوریاں بن جاتی ہیں ، یوں دل تھوڑی چھوٹا کرتے ہیں۔ تب میرا دوست کہتا تھا آپ ٹھیک کہتے تھے کہ عشق میں کچھ نہیں رکھا۔ میرے دوست نے کہا کہ :"میں نے اسے سب کچھ سمجھا تھا۔" ٭٭٭ 27 جون 2017 میرے دوست نے مجھ سے کہا کہ وہ مجھے آ کر ملنا چاہتی ہے ہمارے ایریا میں تو کوئی پارک نہیں ہے۔ ریسٹورنٹس ہیں مگر ہمارا ایریا بہت چھوٹا ہے ہر دوسرا بندہ جانتا پہنچانتا ہے۔یار کوئی بندوبست کرو یار۔ میں نے بولا ٹھیک ہے۔ کچھ نا کچھ کرتے ہیں ۔ "یار آپ مجھے کچھ گھنٹوں کے لیے بیٹھک دے دو۔"میرے دوست نے مجھ سے فرمائش کر دی تھی۔ اب یہ وہ وقت تھا ایک طرف دوست کی دوستی تھی۔ دوسری طرف گھر والوں کی عزت تھی۔ اگر کسی کو پتہ چل جاتا کہ کوئی اجنبی ان کی بیٹھک میں بیٹھے ہیں تو وہ تو کہرام مچا سکتا تھا۔ تیسری طرف میری اپنی عزت کا سوال تھا۔ اگر میرے گھر والوں کو پتہ چل جاتا کہ میں نے اپنے دوست اور اس کی دوست کو اپنے گھر کے ڈرائنگ روم میں بٹھا رکھا ہے تو میرے کتنی انسلٹ ہوتی۔ ان تمام چیزوں کو بلائے طاق رکھتے ہوئے میں نے دوستی کو ترجیح دی۔میں نے انہیں اپنے ڈرائنگ روم میں دکھ سکھ کرنے کے لیے دو گھنٹے دیے۔ اس دوران میرے ابو جان کو شک ہو گیا تھا کہ جیسے بھی کرکے میں نے اپنے دوست کو بچا لیا۔ میرا دوست اور اس کی میڈم خیرو عافیت سے اپنے گھر روانہ ہو گئے۔ ٭٭٭ ذاتی طور پر مجھے ایسے عشق سے نفرت تھی جس میں ایک لڑکی کو اپنے ماں باپ کو دھوکا دے کر گھر سے باہر نکلنا پڑے۔میرے دوست کی فرینڈ مجھے بالکل اچھی نہیں لگتی تھی۔ میرے دوست کا اور اس کا کوئی جوڑ نہیں تھا ۔ ان کی دوستی کے کچھ دنوں بعد اس نے میرے دوست کو بتایا تھا کہ میں کسی سے پہلے محبت کرتی تھی لیکن اس نے مجھے دھوکا دیا اور اس کی پہلے ہی شادی ہو چکی تھی۔ لیکن اب اس کو پھر سے محبت ہو گئی تھی میرے دوست سے۔ میں اپنے دوست پہ قربان جاؤ اسے کیونکہ وہ تو پہلے ہی اس پہ مر چکے تھے۔ مجھے ان کا تعلق بالکل پسند نہ تھا۔ جب میرے دوست کے گھر والوں کے ساتھ اس لڑکی نے بدتمیزی کی۔ اس نے یہ بھی کہا کہ آپ کے لڑکے کو ہی آگ لگی ہے ، مجھے تو کوئی شوق نہیں ہے اس کے ساتھ شادی کرنے کا۔لیکن پھر بھی عشق سر چڑھ کر بولتا ہے۔ میرے پاگل دوست کو پھر بھی سمجھ نہ آئی کہ وہ لڑکی عزت کے قابل نہیں ہے۔ ٭٭٭ جس دن اس نے میرے دوست کے گھر والوں سے بدتمیزی کی تو اس دن میری اس کے ساتھ کال پہ بات ہوئی۔ اس نے مجھ سے کہا کہ میں پہلے سوئی ہوئی تھی جب اس کے گھر والوں نے کال کی ۔ پتہ نہیں وہ کیا کیا بولتے رہے مجھے سمجھ نہیں آئی۔پھر بعد میں مَیں نے ان کو کا ل کی وہ آگے سے بہت باتیں کر رہے تھے کہ تم نےہمارے لڑکے کو خراب کر دیا۔ تمہاری وجہ سے ہمارے لڑکے نے اپنی گاڑی فروخت کر دی۔ وغیرہ وغیرہ ۔ "میں نے اس کی باتیں سن کر انداز ہ لگایا کہ اب ان کی دوستی، عشق و محبت سب ختم ہو گیا ہے۔ تو میں نے اسے کچھ مزید سب بتا دیے۔ لیکن کچھ بتانا میری بہت بڑی غلطی بن گئی۔ اگلے دوست نے مجھے کہا کہ گھر والوں نے تو دھوکا دیاہی تھا مگر آپ نے کیوں دیا؟ میں نے کہا کہ میں سمجھا نہیں ، تو اس نے کہا کہ میڈم نے سب کچھ مجھے بتا دیا ہے اور کہا ہے ہمارا تعلق ختم ہونا تھا سو ہو گیا مگر آئندہ کسی دوست سے کوئی بھی بات شیئر مت کرنا۔ تمہارا دوست اچھا نہیں ہے۔ اس نے تمہاری باتیں راز نہیں رکھی ۔ " یہ سب سن کر میرا ایک رنگ آ رہا تھا اور دوسرا جا رہا تھا۔ میں مانتا ہوں کہ واقعی میں نے غلط کیا تھا۔ میں نے غلط کیا تھا مگر میرا مقصد غلط نہیں تھا ۔ میں اپنے دوست کی زندگی برباد نہیں دیکھنا چاہتا تھا۔ میں جانتا تھا کہ ایسی لو سٹوری مستقبل کے لیے عبرت کا نشان بن جاتی ہے ، جس میں باتیں تو ساری پہلے ہو جاتی ہیں اور جب حقیقت میں لائف شروع ہوتی ہے تو آئے روز جھگڑے ہوتے ہیں اور علیحدگی تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔صرف اپنی خوشی کی خاطر دونوں خاندانوں کی عزت مٹی میں ملا کر بھی وہ خوش نہیں رہ پاتے ۔ اس لیے یہ سب ہونے سے پہلے ہی میں سب ختم کرنا چاہتا تھا ۔ مگر میرے دوست کی میڈم نے مجھ سے میرا دوست چھین لیا۔ اگر وہ اتنی ہی اچھی تھی کہ جب اس کو سچ بتایا تو اس کو را ز رکھ لیتی ۔ مگر جو اب راز نہیں رکھ سکی ، کل میرے دوست کے گھر کی بہو بن کر کیا راز رکھے گی؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ ٭٭٭ میں نے اپنے دوست سے کہا کہ "آپ نے ساری باتیں بالکل ٹھیک کی۔ میں نے آپ کو دھوکا دیا۔ میں نے آپ کی بات اس کے ساتھ کروائی۔ میں نے ہر معاملے میں آپ کی مدد کی ۔ آخر کار میں نے ہی آپ کو دھوکا دے دیا۔ آپ کو سیڑھی پر چڑھا کر نیچے سے سیڑھی کھینچ لی۔ لو مان لیا میں نے ! میں نے ایسی غلطی کی ہے جس کی کوئی معافی بھی نہیں ہے لیکن اللہ کے واسطے مجھے معاف کر دینا ۔ بس مجھے ایک سوال کا جواب دے دینا۔"آپ نے مجھے کہا تھا انسان جب غمگین ہو تو سگریٹ پینے سے غم دور ہو جاتا ہے۔ میں نے اپنی میڈم سے پوچھا کہ میں سیگریٹ پی لیا کرو تو اس نے تنگ آکر بولا ، ہا ں پیو مرو۔ تو آپ نے سگریٹ پینا شروع کر دیے ۔ عید کے دن آپ کے پاس بیٹھ کر مَیں نے بڑی محبت سے آپ کو کہا یار سگریٹ پینا چھوڑ دو۔یہ صحت کے لیے اچھی نہیں ہے ۔ اس سے بہت نقصانات ہوتے ہیں ۔ آپ کو بہت سمجھا یا ، لیکن آپ نے کہا کہ دوستی چھوٹ سکتی ہے لیکن سگریٹ نہیں۔ حالانکہ میں آپ مجھ پہ بہت زیادہ یقین رکھتے تھے۔ہر بات مجھ سے شیئر کرتے تھے۔ مجھے سب سے اچھا دوست مانتے تھے ۔میں نے کہا اگر آپ کی میڈم آپ کو سگریٹ پینے سے منع کر دے تو؟"تو پھر میں سموکنگ کرناچھوڑ دو گا۔ "دوست نے کہا۔بس وہ کچھ دن پہلے اس سے آپ کو محبت ہوئی۔ وہی آپ کا سب کچھ ہو گئی ۔ جس پہ آپ کو بہت یقین تھا ، آپ کا جگری دوست تھا ، اس کی خاطر آپ سموکنگ کرنا نہ چھوڑ سکے ۔" مختصر یہ کہ دوست نے کہا آپ کے ساتھ جو لین دین تھا۔ وہ میں کلیئر کر دو گا۔آ ج کے بعد میں آپ کا دوست نہیں ہوں۔پھر مجھے کہنا پڑ گیا کہ اور پھر دوستی ہار گئی۔

Saturday 29 July 2017

ترقی میں رکاوٹ بننے والے شخص کی میت

(Khawaja Mussadiq Rafiq, Karachi) ایک کمپنی کا ایک ملازم اپنے دفتر پہنچا تو اسکی نگاہ دفتر کے گیٹ پر لگے ہوئے ایک نوٹس پر پڑی جس پر لکھا تھا* جو شخص کمپنی میں آپ کی ترقی اور بہتری میں رکاوٹ تھا کل رات اسکا انتقال ہوگیا آپ سے گزارش ہے کہ اس کی آخری رسومات اور جنازے کے لیے کانفرنس ہال میں تشریف لے آئیں جہاں پر اسکی میت رکھی ہوئی ہے*- یہ پڑھتے ہی وہ اداس ہوگیا کہ اس کا کوئی ساتھی ہمیشہ کے لیے اس سے جدا ہوگیا لیکن چند لمحوں بعد اس پر تجسس غالب آ گیا کہ آخر وہ شخص کون تھا جو اسکی ترقی کی راہ میں رکاوٹ تھا اس تجسس کو ساتھ لیے وہ جلدی سے کانفرس ہال میں پہنچا تو وہاں اس کے دفتر کے باقی سارے ساتھی بھی اسی نوٹس کو پڑھ کر آئے ہوئے تھے اور سب حیران تھے کہ آخر یہ شخص کون تھا- کانفرس ہال کے باہر میت کو دیکھنے کے لیے لوگوں کا اس قدر ہجوم ہوگیا کہ سکیورٹی گارڈ کو یہ حکم جاری کرنا پڑا کہ سب لوگ ایک ایک کر کے اندر جائیں اور میت کا چہرہ دیکھ لیں- سب ملازمین ایک ایک کر کے اندر جانے لگے جو بھی اندر جاتا اور میت کے چہرے سے کفن ہٹا کر اس کا چہرہ دیکھتا تو ایک لمحے کی لیے حیرت زدہ اور گنگ ہو کر رہ جاتا اور اسکی زبان گویا تالو سے چپک جاتی یوں لگتا کہ گویا کسی نے اسکے دل پر گہری ضرب لگائی ہو- باری آنے پر وہ شخص بھی اندر گیا اور میت کے چہرے سے کپڑا ہٹا کر دیکھا تو اس کا حال بھی دوسروں جیسا ہی ہوا- کفن کے اندر ایک بڑا سا آئینہ رکھا ہوا ہے اور اسکے ایک کونے پر لکھا تھا *دنیا میں ایک ہی شخص ہے جو آپ کی صلاحیتوں کو محدود کر کے آپ کی ترقی میں رکاوٹ بن سکتا ہے اور وہ آپ خود ہیں*- *یاد رکھیے آپ کی زندگی میں تبدیلی آپ کی کمپنی تبدیل ہونے سے آپ کا باس تبدیل ہونے سے آپ کے دوست احباب تبدیل ہونے سے نہیں آتی، آپ کی زندگی میں تبدیلی تب آتی ہے جب آپ اپنی صلاحیتوں پر اعتبار کرنا شروع کر دیتے ہیں ، ناممکن کو ممکن اور مشکلات کو چیلنج سمجھتے ہیں اپنا تجزیہ کریں ۔ اپنے آپ کو آزمائیں ۔ مشکلات ، نقصانات اور نا ممکنات سے گھبرانا چھوڑ دیں اور ایک فاتح کی طرح جئیں-

Wednesday 26 July 2017

MERE DARD KE KOE DAWA NAI

حمیرا انجم کہتی ہیں کہ والدین خواہ کتنے بھی غریب کیوں نہ ہوں، انہیں اپنی اولاد کوادھر اُدھر تقسیم کرنے کی بجائے خود پالنا چاہیے وہ15جون1974کی ایک چلچلاتی دوپہر تھی جب سیاہ چادر میں لپٹی ایک مجبور وبے بس عورت اپنی ماں اور تین چھوٹے چھوٹے بچوں کے ہمراہ ساہیوال کے ایک ہسپتال میں داخل ہوئی۔دکھ اور تکلیف کی شدت سے اس کی آنکھیں چھلکی پڑ رہی تھیں۔اس وقت اسے اپنے شوہر کے سہارے کی ضرورت تھی لیکن وہ ہمیشہ کی طرح یہ وقت آنے سے چند ماہ پہلے ہی غائب ہو چکا تھا۔لیبر روم سے باہرسہمے ہوئے تینوں بچے اپنی نانی سے لپٹ کر کھڑے تھے۔ان کی پریشان نظریں کبھی لیبر روم کی طرف اٹھتیں تو کبھی وہ افسردہ نانی کو دیکھنے لگتے۔تھوڑی دیر بعدلیبر روم ایک نوزائیدہ کی ننھی سی چیخ سے گونج اٹھا ،پھر جب لیبرروم کا دروازہ کھلا اور نرس سفید چادر میں لپٹی ننھی سی جان کو لے کرہسپتال سے باہر نکلی تو بوڑھی عورت کی دبی دبی سسکیاں اور بلند ہوگئیں، غیرارادی طور پر اس نے بچوں کواور قریب کر لیا…یہ حمیرا انجم کی زندگی کا آغاز تھا۔اسے جنم دینے والی ماں کوئی اور تھی جبکہ پالنے پوسنے کی ذمہ داری پروردگار نے کسی اور کے سپرد کردی۔حمیرا کو اسی ہسپتال کی ایک بے اولاد لیڈی ڈاکٹرنے گود لے لیا تھا۔یہ اس کی زندگی کے بہترین ماہ وسال تھے جو اس نے اپنے والدین کے زیرِ سایہ گزارے۔والدہ لیڈی ڈاکٹر اور والد سرکاری افسرتھے ۔دولت کی فراوانی تھی بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ زندگی کی کون سی نعمت اور خوشی تھی جو انہوں نے حمیرا کے قدموں میں ڈھیر نہ کی ہو۔قیمتی کھلونے،کپڑے اور پڑھائی کے لئے اعلیٰ تعلیمی ادارے…ان سب چیزوں نے کبھی احساس ہی نہیں ہونے دیاکہ اس کے اتنے ناز نخرے اٹھانے والے اسے جنم دینے والے ماں باپ نہیں بلکہ اگر کبھی کسی تقریب میں جانا پڑ جا تاتوبھی امی اسے نظروں سے اوجھل نہ ہونے دیتیں ، وہاں بھی وہ ان کی نظروں کے سامنے ہی رہتی۔ اکثراس کا دل چاہتا کہ وہ بھی گرمیوں کی چھٹیاں رشتے داروں کے گھر جا کر گزارے یا کم از کم پارک ہی میں دوسرے بچوں کے ساتھ کھیلنے چلی جائے لیکن اسے تنہا کہیں جانے کی اجازت نہ تھی۔وہ اکثر جھنجھلا جاتی کہ آخراس کے ساتھ ایسا سلوک کیوں؟امی کو کس بات کی پریشانی ہے؟ان تمام باتوں کا جواب اسے کئی برسوں بعد ملا جب اس نے بی اے میں ایڈمشن لیا اور اس کے رشتے آنے شروع ہوگئے۔قدرت نے دولت کے ساتھ ساتھ حمیرا کو بے پناہ حسن سے بھی نوازا تھااس لئے اپنے اور غیر سبھی اس کے خواہشمند تھے۔حمیرا کہتی ہیں ’’میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتی تھی۔ سائیکالوجی میرا پسندیدہ مضمون تھا اورمیں اسی میں ڈاکٹریٹ کرنا چاہتی تھی تاکہ میرے نام کے ساتھ بھی ڈاکٹر کا اضافہ ہوسکے لیکن چونکہ میری زندگی میں دھکے کھانے لکھے تھے اس لئے اعلیٰ تعلیم ادھورا خواب بن کر رہ گئی۔امی میری شادی خاندان میں نہیں کرنا چاہتی تھیں اوراس کی وجہ دولت تھی جس کی میں تنہا وارث تھی امی اپنے تمام رشتہ داروں کی نیت سے اچھی طرح واقف تھیں جبکہ ابو میری شادی اپنے بھتیجے سے کرنے پر بضد تھے۔ دراصل وہ اپنی تمام جائیداد میرے ذریعے اپنے خاندان میں منتقل کرنا چاہتے تھے اس وقت ا نہیں بھی علم نہیں تھا کہ انجانے میں وہ مجھ پر کتنا بڑا ظلم کرنے جارہے ہیں۔ امی بہت پریشان تھیں خیر انہوں نے مجھے اپنی ایک ایک چیز کا وارث بنایا اور یہ حقیقت بھی واضح کردی کہ میں ان کی حقیقی بیٹی نہیں ہوں۔میرے لئے یہ انکشاف بہت بڑا صدمہ تھا،میں گم سم سی ہوکر رہ گئی۔آخر میرے ماں باپ نے میرے ساتھ یہ ظلم کیوں کیا؟کیا وہ اتنے غریب تھے کہ مجھے ایک وقت کا کھانا بھی نہیں دے سکتے تھے؟جہاں وہ اور بچوں کو پال رہے تھے میں بھی پل ہی جاتی … امی کے انکشاف نے مجھے ذہنی طور پرہلا کر رکھ دیا۔ مجھے اپنا سجا سجایا ،قیمتی چیزوں سے بھرا کمرہ زہر لگ رہا تھا۔امی ابو میرے پاس آتے تو میں ان سے منہ پھیر لیتی لیکن پھر مجھے احساس ہواکہ آخر اس سارے معاملے میں ان بیچاروں کا کیا قصور؟ امی اپنے تمام رشتہ داروں کی نیت سے اچھی طرح واقف تھیں جبکہ ابو میری شادی اپنے بھتیجے سے کرنے پر بضد تھے ،کیونکہ وہ اپنی تمام جائیداد میرے ذریعے اپنے خاندان میں منتقل کرنا چاہتے تھے انہوں نے تو اپنی ساری محبتیں مجھ پر نچھاور کردیں…جہاں میرے قدم پڑتے وہاں یہ لوگ اپنی ہتھیلیاں رکھ دیتے …میں انہیں کس بات کی سزا دے رہی ہوں؟ میرے پالنے والے والدین واقعی بہت عظیم تھے انہوں نے میری گستاخیوں کو ایسے نظر انداز کیا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ اس کے باوجود میں نے اپنے دل میں ٹھان لی کہ اس ماں کوضرور ڈھونڈوں گی کہ جس نے مجھے جنم تو دیا لیکن پھر کسی اور کے حوالے کر دیا۔‘‘بہرحال حمیرا نے جیسے ہی گریجوایشن مکمل کی اس کی شادی بڑی دھوم دھام سے اس کے چچازاد سے کردی گئی اگرچہ اس کی والدہ اس رشتے کے حق میں نہیں تھیں بلکہ وہ اس کی شادی سسرال اور میکے دونوں میں ہی نہیں کرنا چاہتی تھیں لیکن شوہرکے سامنے ان کی ایک نہ چل سکی اور یوں حمیرا رخصت ہوکراپنے چچا کر گھر آگئی جہاں زندگی کا خوفناک دور اس کا منتظر تھا۔یہ ایسا پُرخار راستہ تھا جس نے اس کی روح تک کو زخمی کردیا۔حمیرا کہنے لگی’’میں سمجھتی ہوں کہ امی کے گھر سے رخصت ہوتے ہی میری بدقسمتی کا آغاز ہو گیاتھا،لیکن چونکہ ابھی شادی کو تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا اور امی بھی زندہ تھیں اس لئے میرے شوہر اور سسرال والوں نے فوری طور پر اپنی بدنیتی کا اظہار نہیں کیا ۔میری شادی کے دوماہ بعد امی عمرے کے لئے گئیں تو وہیں سے موت کا فرشتہ انہیں اپنے ساتھ لے گیا۔وہ دن میرے شوہر اور سسرال والوں کے لئے شاید عید کا دن تھا۔امی کے انتقال کے فوراً بعد انہوں نے جائیداد ہتھیانے کی خاطر اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرنا شروع کردیئے۔ یہاں میری خوبصورتی میرے لئے طعنہ بن گئی …اٹھتے بیٹھتے میرے کردار پر کیچڑ اچھا لا جانے لگا اور مجھے جتایا گیاکہ یہ شادی صرف ایک معاہدہ تھی تاکہ جائیداد حاصل کی جاسکے ورنہ اس خاندان سے میرا کیا تعلق؟ میں نے صبر کے ساتھ وقت گزارنے کا تہیہ کرلیا کیونکہ میرے پاس واپسی کاکوئی راستہ نہ تھا پھر اپنے گھرکو بچانے اورفقط ایک لفظ’’ طلاق‘‘ سے بچنے کے لئے میں نے وہ اذیتیں سہیں جو بیان سے باہر ہیں۔اس دوارن ابو بھی اپنے رشتہ داروں کے ساتھ مل چکے تھے پھر جب میرا پہلا بیٹا پیدا ہوا تو میرا شوہرطلاق نامہ لکھ کر لے آیااور کہنے لگا’’میں نے تمہیں ایک طلاق دے دی ہے، اسی وقت اپنا مکان میرے نام لکھ دو اگر ایسا نہیں کروگی تو میں ابھی باقی دو طلاقیں بھی دے کر فارغ کردوں گا۔‘‘ ان حالات میں حمیرا کے پاس اب کوئی چارہ نہیں رہ گیا تھا اس نے اپنا رشتہ بچانے کی خاطرخاموشی سے مکان شوہر کے نام کردیالیکن اب وہ جان چکی تھی کہ اس شادی کا انجام کیا ہونے والا ہے ؟ وہ جانتی تھی کہ رفتہ رفتہ ساری جائیداد اس کے ہاتھوں سے نکلنے والی ہے۔ تمام زیورات سسرال والے پہلے ہی اپنے قبضے میں کرچکے تھے … انہی غیر یقینی حالات میں اگلے برس وہ دوسرے بیٹے کی ماں بن گئی اورطلاق کی تلوار ایک بار پھر اس کے سر پر لٹکا دی گئی، اس مرتبہ جب اس نے انکار کیا اور منت سماجت کی تو شوہر کے ساتھ اس کے گھر والوں نے بھی اسے مارا پیٹا اور زبر دستی جائیداد کے کاغذات پر دستخط کروالئے۔شاید اللہ کو اس کی مدد منظور تھی وہ ایک پلاٹ کے کاغذات چھپانے میں کامیاب ہوگئی۔ ’’یہ وہ وقت تھا جب بھری دنیا میں کوئی بھی میرا ساتھ دینے کو تیا رنہ تھا ،مجھے ایسا لگتا جیسے میں چلنا بھول گئی ہوں… میں قدم کہیں رکھتی اوروہ پڑتے کہیں اور…میری زبا ن پر بھی جیسے تالے پڑ گئے تھے۔مجھے ایسا لگتا جیسے میں کوئی جاہل اور ان پڑھ عورت ہوں،جو اپنے حق کے لئے بول نہیں سکتی … شدیدڈیپریشن کی وجہ سے میں سارا اعتماد کھو چکی تھی۔اسی دوران میں ایک مرتبہ پھرامید سے ہوگئی ۔میں نے اپنے اللہ سے رو رو کر فریاد کی کہ مجھے اب کسی اور امتحان میں مت ڈالنا… میری صحت اتنی خراب ہوچکی تھی کہ میں اب تیسرا بچہ پیدا کرنے کے قابل نہ تھی لیکن میری دعائیں آسمان سے ٹکرا کر واپس آگئیں ،یعنی ابھی قدرت کو میری اور آزمائش منظور تھی اور پھر میری بد قسمتی کا ایک اور در کھلا ،تیسر ے بچے کی پیدائش کے وقت میرے شوہر نے مجھے مکمل طلاق دے دی کیونکہ اب وہ کہیں اور شادی کرنا چاہتا تھا یا شاید کرچکا تھا۔میں بہت روئی… گڑگڑائی لیکن مجھ سے تینوں بچے چھین کر مجھے گھر سے نکال دیاگیااور یہ سزا اس لئے دی گئی کہ وہ آخری آخری پلاٹ میں نے اس کے نام کیوں نہیں کیا؟ مجھے اپنے انجام کا علم ہوچکا تھا۔ میں نے صبر کے ساتھ وقت گزارنے کا تہیہ کرلیا کیونکہ میرے پاس واپسی کا کوئی راستہ نہ تھا پھر اپنے گھر کو بچانے اور فقط ایک لفظ ’’طلاق‘‘ سے بچنے کے لئے میں نے وہ اذیتیں سہیں جو بیان سے باہر ہیں اس دوران ابو بھی اپنے رشتہ داروں کے طرفدار ہو چکے تھے میں نے سوچا کہ میں یہ پلاٹ اس کے نام لکھ دیتی پھر بھی اس نے مجھے چھوڑ ہی دیناتھا۔‘‘ اب حمیرا مزید سختیاں برداشت کرنے کے قابل نہ رہی تھی۔ایک روز اس نے رختِ سفر باندھا اور ساہیوال کی جانب چل پڑی اس کی منزل وہ ہسپتال تھا جہاں اس نے جنم لیا اور اس کی نانی نے اسے کسی اور کی جھولی میں ڈال دیا۔ حمیرا بھرائی ہوئی آواز میں بولی ’’میں نے جب ہسپتال میں قدم رکھاتوآنسوتھے کہ تھمنے کا نام ہی نہ لے رہے تھے۔ یہ وہی جگہ تھی جہاں میری قسمت کا سودا ہوا تھا… یہاں تو شاید کسی کو میری ماں کے بارے میں علم ہی نہ تھا لیکن میں ایک موہوم سی امید لے کر وہاں گئی تھی اور پھر ہسپتال میں موجودایک نرس نے میرا بڑا ساتھ دیا۔ اس نے کلرک کے ساتھ مل کر پرانا ریکارڈ ڈ ھونڈا تومعلوم ہوا کہ اس دور کی ایک نرس مس رفیعہ ابھی اس ہسپتال میں ہی ہے ،شاید وہ میری مدد کر سکے ۔میں سسٹر رفیعہ کا ا یڈریس لے کر ان کے گھر پہنچی ۔ان کے بیٹے نے مجھے ڈرائنگ روم بٹھایا سسٹراس وقت بازار گئی ہوئی تھیں، جیسے ہی وہ واپس آکر ڈرائنگ روم میںآئیں تو مجھے دیکھتے ہی ان کے ہاتھ سے شاپنگ بیگ گرپڑے۔ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور انہوں نے آگے بڑھ کر مجھے اپنے ساتھ لپٹالیا،نجانے کس جذبے کے تحت ہم رورہی تھیں۔بہرحال کچھ دیر بعدجب ہم دونوں دل کی بھڑاس نکال چکیں تو یوں لگا جیسے غم کے بادل چھٹ گئے ہیں اور میں اپنی ماں کی بانہوں میں آگئی ہوں ۔ سسٹر رفیعہ کہنے لگیں، تم ہوبہو اپنی ماں جیسی ہو ۔جس وقت تمھاری ماں ’’ڈلیوری‘‘ کے لئے ہسپتال آئیں تو ان کا حسن دیکھ کر عملے سمیت تمام لوگوں کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ تمھاری ماں نے سرخ رنگ کے جوڑے پر سیاہ چادر اوڑھ رکھی تھی اور ان کے لمبے سیاہ بال بیڈ سے نیچے زمین تک جارہے تھے ۔ میں نے اپنی زندگی میں اتنی خوبصورت لڑکی پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ میں نے ہی ان کے بال اٹھا کر ان کا جوڑا بنایا… اسی لئے جب میں نے تمہیں دیکھا تو ایسا لگا جیسے تمھاری ماں میرے سامنے آگئی ہو لیکن اس بیچاری کی قسمت بہت خراب تھی ۔اس کا شوہر یعنی تمھارا باپ بہت برا آدمی تھا۔جب بھی تمھاری ماں امید سے ہوتی تو بچے کی پیدائش سے چند ماہ پہلے ہی کہیں غائب ہوجاتا اور ڈلیوری کے تمام اخراجات تمھاری نانی کو اٹھانے پڑتے ویسے بھی تمھارا باپ اگر کچھ کماتا تو نشے میں اڑا دیتا، گھر کے تمام اخراجات تمھاری نانی ہی پورے کرتی تھیں اسی لئے انہیں چوتھا بچہ نہیں چاہیے تھا۔ہماری لیڈی ڈاکٹر صاحبہ،جنہوں نے تمہیں پالا، بے اولاد تھیں۔انہوں نے تمھاری نانی کو قائل کرلیا کہ وہ پیدا ہو نے والا بچہ ڈاکٹر صاحبہ کو دے دیں گی۔چنانچہ ایسا ہی ہوا تمھاری پیدائش کے فوراً بعد میں نے ہی تمہیں ’’تمھاری والدہ‘‘کے حوالے کیا تھا اور اتفاق سے وہ میری ملازمت کا پہلا دن تھا۔ تمھاری پیدائش کے بعد تمھارا باپ ایسا غائب ہوا کہ پھر اس کا کچھ پتا نہ چل سکا ۔کچھ عرصہ بعد تمھاری نانی بھی تمھاری والدہ اور تینوں بچوں کولے کر نجانے کہاں چلی گئیں؟ خود لیڈی ڈاکٹر صاحبہ نے بھی یہاں سے ٹرانسفر کروالی تھی ۔‘‘ سسٹر رفیعہ سے ملنے کے بعدحمیرا اس محلے میں بھی گئی جہاں اس کی نانی اور والدین رہا کرتے تھے لیکن کوئی نہیں جانتا تھا کہ وہ لوگ اب کہاں ہیں۔ پُلوں کے نیچے سے بہت سارا پانی بہہ چکا تھا…اس در بدر عورت کے دردکا کوئی درماں نہیں تھا۔اس کی زندگی اس کشتی کی مانند تھی جوگرداب میں پھنس گئی تھی ۔اس کے سر پہ ہاتھ رکھنے والی دونوں مائیں کہیں کھو چکی تھیں تو دوسری طرف اس کے جگر کے ٹکڑے بھی اس سے چھین لئے گئے تھے اور یوں 1974میں کئے گئے ایک غلط فیصلے کی سزا بھگتنے کے لئے وہ تنہا رہ گئی تھی ۔حمیرا کو جب اس کے شوہر اور سسرال والوں نے گھر سے نکالاتو وہ اس کی دوست نے اسے سہارا دیااور اپنے پاس رکھ لیااگرچہ وہ اپنی زندگی سے مایوس ہو چکی تھی لیکن حرام موت مرنے کی اس میں ہمت نہیں تھی پھر اچانک ایک روز اس نے سوچاکہ زندگی کو رو پیٹ کر کیوں گزارا جائے ؟اسے ان حالوں میں پہنچانے والے خود عیش کی زندگی بسر کررہے ہیں تو وہ کیوں نہ اپنی زندگی بہتر بنانے کی کوشش کرے…پھر اللہ نے اسے راستہ دکھایا… اوراب اس کی پہلی ترجیح ملازمت تھی اور پھر قانونی طور پر بچوں کا حصول …کافی سوچ بچار کے بعداس نے ایک بیوٹیشن سے رابطہ کیا ،کبھی اچھے دنوں میں وہ اس کے پارلر جایا کرتی تھی،حمیرا کے حالات کو دیکھتے ہوئے بیوٹیشن نے اسے مفت تربیت دینے کے ساتھ ساتھ ملازمت بھی دے دی۔ ’’میں ان لوگوں کا احسان نہیں بھول سکتی جنہوں نے ہر مشکل حالات میں میری مدد کی ۔ پارلر میں ملازمت ملتے ہی میں نے سول کورٹ میں بچوں کی کسٹڈی(Custody) کے لئے کیس کردیا۔ کئی مہینے عدالتوں کے دھکے کھانے کے بعد مجھے ننھااویس ہی مل سکاجبکہ دونوں بڑے بچوں سے ملاقات تودرکنار،انہیں دور سے دیکھنے پر بھی پابندی ہے‘‘۔آج یہ بے سر وسامان عورت،جو اپنے بچوں کے لئے ترس رہی ہے،کہتی ہے ’’ والدین خواہ کتنے بھی غریب کیوں نہ ہوں،اپنی اولاد کوخود ہی پالیں،انہیں اِدھراُدھر تقسیم نہ کریں… میں کس کے آگے سوال کروں اورکس کے سامنے اپنی بربادی کا ماتم کروں؟کیا ان گمشدہ رشتوں کے سامنے جنہوں نے مجھے بوجھ سمجھ کر پھینک دیایا اس ماں کے سامنے فریاد کروں جس نے مجھے سینے سے لگا تو لیا لیکن کھوکھلے رشتوں کے سپردکرکے قبرستان کو اپنا مسکن بنا لیا۔‘‘اپنوں کی ستائی اور حالات سے پریشان حمیرا …اب بیرونِ ملک معذور بچوں کے ایک ادارے میں ملازمت کر رہی ہے۔اس کی زندگی کا اب واحد مقصداپنے دو نوں بڑے بیٹوں کا حصول ہے وہ اپنے تینوں بچوں کو دنیا کی نظروں سے اس طرح بچانا چاہتی ہے جیسے چیل کو دیکھتے ہی مرغی چوزوں کواپنے پروں کے نیچے چھپا لیتی ہے۔۔۔

اک سچی کہانی نہ فرمان اولاد


ﮐﺴﯽ ﮔﺎﺅﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻋﻮﺭﺕ ﺍﭘﻨﮯ ﭘﺎﻧﭻ ﺳﺎﻝ ﮐﮯ ﭼﮭﻮﭨﮯ
ﺑﭽﮯ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺭﮨﺘﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﮐﭽﮫ ﻣﺎﮦ ﻗﺒﻞ ﺍُﺱ ﮐﮯ ﺷﻮﮨﺮ ﮐﺎ
ﺍﻧﺘﻘﺎﻝ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﻟﮩٰﺬﺍ ﯾﮧ ﻋﻮﺭﺕ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﮐﻠﻮﺗﮯ ﺑﯿﭩﮯ ﮐﯽ
ﺗﻌﻠﯿﻢ ﻭ ﺗﺮﺑﯿﺖ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺧﻮﺩ ﮨﯽ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﮔﮭﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ
ﮐﺎﻡ ﮐﺮﺗﯽ، ﺍُﻧﮑﮯ ﺑﺮﺗﻦ ﻣﺎﻧﺠﮭﺘﯽ، ﮐﭙﮍﮮ ﺩﮬﻮﺗﯽ ﺍﻭﺭ ﺍُﻧﮑﮯ
ﺑﮍﮮ ﺑﮍﮮ ﮔﮭﺮﻭﮞ ﮐﻮ ﯾﮧ ﺍﮐﯿﻠﯽ ﻋﻮﺭﺕ ﺗﻦ ﺗﻨﮩﺎ ﺻﺎﻑ
ﮐﺮﺗﯽ ﺗﺎﮐﮧ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﯿﭩﮯ ﮐﯽ ﺑﻨﯿﺎﺩﯼ ﺿﺮﻭﺭﺗﻮﮞ ﮐﻮ ﭘﻮﺭﺍ ﮐﺮ ﺳﮑﮯ۔
ﻭﻗﺖ ﮔﺰﺭﺗﺎ ﮔﯿﺎ، ﺍﻭﺭ ﮐﺌﯽ ﺳﺎﻝ ﺑﯿﺖ ﮔﺌﮯ۔ ﺍﺏ ﺍِﺱ ﮐﺎ ﺑﯿﭩﺎ
ﺟﻮﺍﻥ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﺴﯽ ﺍﭼﮭﯽ ﮐﻤﭙﻨﯽ ﻣﯿﮟ ﻧﻮﮐﺮﯼ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﺎ۔ ﺍُﺳﮑﯽ ﺷﺎﺩﯼ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﺗﮭﯽ، ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﭘﯿﺎﺭﺍ ﺳﺎ
ﺑﯿﭩﺎ ﺑﮭﯽ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﻋﻮﺭﺕ ﺍﺏ ﺑﮍﮬﺎﭘﮯ ﮐﯽ ﺩﮨﻠﯿﺰ ﭘﺮ

ﺩﺳﺘﮏ ﺩﮮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔
ﺑﯿﭩﺎ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﻭﺭ ﻧﻮﮐﺮﯼ ﻣﻠﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﺎﮞ ﮐﺎ
ﺍﺣﺘﺮﺍﻡ ﮐﺮﻧﺎ ﺗﻮ ﺩﻭﺭ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﺍُﺳﮑﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮈﮬﻨﮓ ﺳﮯ ﺑﺎﺕ
ﺑﮭﯽ ﻧﮧ ﮐﺮﺗﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺍِﺱ ﺑﻮﮌﮬﯽ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ
ﺻﺮﻑ ﺍﺗﻨﺎ ﻓﺮﻕ ﺁﯾﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﭘﮩﻠﮯ ﯾﮧ ﻏﯿﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﺑﺮﺗﻦ ﺍﻭﺭ
ﮐﭙﮍﮮ ﺩﮬﻮﺗﯽ ﺗﮭﯽ، ﺍﺏ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﮩﻮ ﺑﯿﭩﮯ ﮐﮯ ﺟﻮﭨﮭﮯ ﺑﺮﺗﻦ
ﺩﮬﻮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ، ﭘﮩﻠﮯ ﯾﮧ ﺩﻭﺳﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﮔﮭﺮﻭﮞ ﮐﯽ ﺻﻔﺎﺋﯽ
ﮐﺮﺗﯽ ﺗﮭﯽ، ﺍﺏ ﯾﮧ ﺑﮩﻮ ﮐﮯ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﯽ
ﺻﻔﺎﺋﯽ ﮐﺮﻧﮯ ﭘﺮ ﻣﺠﺒﻮﺭ ﺗﮭﯽ۔
ﺧﯿﺮ ﺟﻮ ﺑﮭﯽ ﺗﮭﺎ، ﻟﯿﮑﻦ ﺗﮭﯽ ﺗﻮ ﯾﮧ ﺍﯾﮏ ﻣﺎﮞ، ﺍﭘﻨﮯ ﺑﯿﭩﮯ
ﮐﯽ ﺧﻮﺷﯽ ﮐﯽ ﺧﺎﻃﺮ ﻭﮦ ﮨﺮ ﺩُﮐﮫ ﺟﮭﯿﻠﻨﮯ ﮐﻮ ﺗﯿﺎﺭ ﺗﮭﯽ۔
ﺑﯿﭩﮯ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺩﻭﻟﺖ ﮐﯽ ﮐﻤﯽ ﻧﮧ ﺗﮭﯽ، ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﺩﯼ ﮨﻮﺋﯽ
ﮨﺮ ﭼﯿﺰ ﺍﺏ ﺍُﺳﮑﮯ ﭘﺎﺱ ﺗﮭﯽ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﺎﮞ ﮐﻮ ﺍُﺱ ﻧﮯ ﮔﮭﺮ
ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﺍﻟﮓ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﭼﮭﻮﮌ ﺭﮐﮭﺎ ﺗﮭﺎ ﺟﮩﺎﮞ ﻣﻮﺳﻢ ﮐﯽ
ﺷﺪﺕ ﮐﻮ ﺭﻭﮐﻨﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﻨﺪﻭﺑﺴﺖ ﻧﮧ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﻭﺭ ﮐﺌﯽ
ﮐﺌﯽ ﺩِﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺟﺐ ﮐﺒﮭﯽ ﻭﮦ ﺍُﺱ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﺗﺎ
ﺗﻮ ﺻﺮﻑ ﻣﺎﮞ ﮐﻮ ﮔﺰﺭﮮ ﻭﻗﺖ ﮐﯽ ﻣﺤﺮﻭﻣﯿﺎﮞ ﯾﺎﺩ ﮐﺮﻭﺍ
ﮐﺮ ﻃﻌﻨﮯ ﺩﯾﻨﮯ ﺍﻭﺭ ﻟﮍﻧﮯ ﺟﮭﮕﮍﻧﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ۔
ﺍﯾﮏ ﺩِﻥ ﺳﺮﺩﯾﻮﮞ ﮐﯽ ﯾﺦ ﺑﺴﺘﮧ ﺷﺎﻡ ﻣﯿﮟ ﺍُﺳﮑﯽ ﻣﺎﮞ
ﺍﯾﮏ ﭘﮭﭩﮯ ﭘُﺮﺍﻧﮯ ﮐﻤﺒﻞ ﻣﯿﮟ ﺳُﮑﮍ ﮐﺮ ﺑﯿﭩﮭﯽ ﯾﮧ ﺳﻮﭺ ﺭﮨﯽ
ﺗﮭﯽ ﮐﮧ، ” ﺁﺝ ﺍُﺳﮑﺎ ﺑﯿﭩﺎ ﮐﺎﻡ ﺳﮯ ﻭﺍﭘﺲ ﺁﺋﮯ ﮔﺎ ﺗﻮ ﻭﮦ
ﺍﺳﮯ
ﻧﺌﮯ ﮐﻤﺒﻞ ﮐﺎ ﮐﮩﮯ ﮔﯽ، ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍِﺱ ﮐﻤﺒﻞ ﻣﯿﮟ ﺍُﺳﮯ ﺑﮩﺖ
ﺳﺮﺩﯼ ﻟﮓ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ، ﺍﻭﺭ ﺍﺏ ﺍُﺳﮑﯽ ﮐﻤﺰﻭﺭ ﮨﮉﯾﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﺍِﺱ ﺳﺮﺩﯼ ﮐﻮ ﺑﺮﺩﺍﺷﺖ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﮨﻤﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﯽ۔ ﺍﻭﺭ
ﺍُﺳﮯ ﭘﻮﺭﺍ ﯾﻘﯿﻦ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍُﺳﮑﺎ ﺑﯿﭩﺎ ﺍﺳﮑﯽ ﯾﮧ ﻣﻌﻤﻮﻟﯽ ﺳﯽ ﺳﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﭘﻮﺭﯼ ﮐﺮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺗﺎﺀﻣﻞ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﮮ ﮔﺎ۔
ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﺑﯿﭩﺎ ﮔﮭﺮ ﺁﯾﺎ ﺗﻮ ﻣﺎﮞ ﻧﮯ ﺑﮍﮮ ﭘﯿﺎﺭ ﺳﮯ ﺍُﺳﮯ ﻧﺌﮯ
ﮐﻤﺒﻞ ﮐﺎ ﮐﮩﺎ ﺗﻮ، ﺑﯿﭩﺎ ﻏﺼﮯ ﺳﮯ ﺑﻮﻻ، ” ﻣﺎﮞ ! ﺍﺑﮭﯽ ﺍﺑﮭﯽ
ﻣﯿﮟ ﮐﺎﻡ ﺳﮯ ﺁﯾﺎ ﮨﻮﮞ، ﺍﻭﺭ ﺁﺗﮯ ﮨﯽ ﺗﻢ ﺍﭘﻨﺎ ﻣﻄﺎﻟﺒﮧ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺁ
ﮔﺌﯽ ﮨﻮ۔ ﺍﻭﺭ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﭘﺘﮧ ﮨﮯ ﮐﺘﻨﯽ ﻣﮩﻨﮕﺎﺋﯽ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ۔
ﺍﺑﮭﯽ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﭘﻮﺗﮯ ﮐﻮ ﺍﺳﮑﻮﻝ ﺩﺍﺧﻞ ﮐﺮﻭﺍﻧﺎ ﮨﮯ، ﺍُﺳﮑﺎ
ﯾﻮﻧﯿﻔﺎﺭﻡ ﺍﻭﺭ ﮐﺘﺎﺑﯿﮟ ﻟﯿﻨﯽ ﮨﯿﮟ، ﮔﺎﮌﯼ ﮐﯽ ﻗﺴﻂ ﺍﺩﺍ
ﮐﺮﻧﯽ ﮨﮯ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﻟﯿﮯ ﺟﯿﮑﭧ ﺧﺮﯾﺪﻧﯽ ﮨﮯ،
ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺑﮩﻮ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺷﺎﻝ ﻻﻧﯽ ﮨﮯ۔
ﺗﻢ ﺗﻮ ﺳﺎﺭﺍ ﺩِﻥ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﺭﮨﺘﯽ ﮨﻮ، ﺗﻤﮩﯿﮟ ﮐﻤﺒﻞ ﮐﯽ
ﺍﺗﻨﯽ ﮐﯿﺎ ﺍﺷﺪ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﺁﻥ ﭘﮍﯼ ﮨﮯ؟ ﮨﻢ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﺗﻮ ﺑﺎﮨﺮ
ﮔﮭﻮﻣﻨﮯ ﺟﺎﻧﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ، ﺗﻢ ﮐﺴﯽ ﻃﺮﺡ ﯾﮧ ﺳﺮﺩﯾﺎﮞ ﮔﺰﺍﺭ
ﻟﻮ، ﺍﮔﻠﮯ ﺳﺎﻝ ﺳﺮﺩﯾﻮﮞ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﮐﻤﺒﻞ ﮐﺎ
ﮐﭽﮫ ﺑﻨﺪﻭﺑﺴﺖ ﮐﺮ ﺩﻭﻧﮕﺎ۔۔۔ “!
ﺑﻮﮌﮬﯽ ﻣﺎﮞ ﺧﻮﻥ ﮐﮯ ﺁﻧﺴﻮ ﭘﯽ ﮐﺮ ﭼُﭗ ﭼﺎﭖ ﺍﭘﻨﮯ
ﺑﻮﺳﯿﺪﮦ ﺣﺎﻝ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﻭﺍﭘﺲ ﺁ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﭩﮯ ﮨﻮﺋﮯ
ﮐﻤﺒﻞ ﮐﻮ ﺍﻭﮌﮪ ﮐﺮ ﭨﻮﭨﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﭼﺎﺭﭘﺎﺭﺋﯽ ﮐﮯ ﮐﻮﻧﮯ ﻣﯿﮟ
ﺳُﮑﮍ ﮐﺮ ﻟﯿﭧ ﮔﺌﯽ۔
ﺻﺒﺢ ﺟﺐ ﺑﯿﭩﮯ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮫ ﮐﮭﻠﯽ ﺗﻮ ﭘﺘﮧ ﭼﻼ، ﭘﭽﮭﻠﯽ ﺭﺍﺕ
ﻣﺎﮞ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﻮ ﭘﯿﺎﺭﯼ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ۔ ﺑﯿﭩﮯ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﺭﺷﺘﮯ
ﺩﺍﺭﻭﮞ ﮐﻮ ﻣﺎﮞ ﮐﮯ ﺟﻨﺎﺯﮮ ﭘﺮ ﺑﻼﯾﺎ۔ ﺍﻭﺭ ﻣﺎﮞ ﮐﮯ ﮐﻔﻦ
ﺩﻓﻦ ﺍﻭﺭ ﻣﮩﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﺧﺎﻃﺮ ﻣﺪﺍﺭﺕ ﭘﺮ ﻻﮐﮭﻮﮞ ﺭﻭﭘﮯ
ﺧﺮﭺ ﮐﯿﮯ۔ ﺟﻮ ﺑﮭﯽ ﺟﻨﺎﺯﮮ ﻣﯿﮟ ﺷﺮﯾﮏ ﮨﻮﺍ، ﯾﮩﯽ ﮐﮩﺘﺎ
ﮐﮧ، ” ﮐﺎﺵ ! ﺍﻟﻠﮧ ﮨﺮ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺍﯾﺴﺎ ﺑﯿﭩﺎ ﺩﮮ، ﻣﺮﻧﮯ ﮐﮯ
ﺑﻌﺪ
ﺑﮭﯽ ﻣﺎﮞ ﺳﮯ ﮐﺘﻨﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﮨﮯ۔ “!
ﻟﯿﮑﻦ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﯾﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﺘﮧ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ، ﺩﻧﯿﺎ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﺩِﮐﮭﺎﻧﮯ
ﮐﯽ ﺧﺎﻃﺮ ﺟﻮ ﺑﯿﭩﺎ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺮﯼ ﮨﻮﺋﯽ ﻣﺎﮞ ﮐﮯ ﺟﻨﺎﺯﮮ ﭘﺮ
ﻻﮐﮭﻮﮞ ﺭﻭﭘﮯ ﺧﺮﭺ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ، ﭘﭽﮭﻠﯽ ﺭﺍﺕ ﭼﻨﺪ ﺳﻮ
ﺭﻭﭘﮯ ﮐﮯ ﮐﻤﺒﻞ ﮐﮯ ﻧﮧ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﻭﮨﯽ ﻣﺎﮞ
ﺳﺮﺩﯼ ﻣﯿﮟ ﺳﺴﮏ ﺳﺴﮏ ﮐﺮ ﺟﺎﻥ ﺩﮮ ﮔﺌﯽ۔
===================================
ﻣﯿﺮﮮ ﻋﺰﯾﺰ ﺩﻭﺳﺘﻮ ! ﺍﭘﻨﮯ ﻣﺎﮞ، ﺑﺎﭖ ﮐﯽ ﻗﺪﺭ ﺍُﻧﮑﮯ
ﺟﯿﺘﮯ
ﺟﯽ ﮐﺮﻭ، ﺍِﺳﯽ ﻣﯿﮟ ﮨﻢ ﺳﺐ ﮐﯽ ﺑﮭﻼﺋﯽ ﮨﮯ۔ ﻣﺮﻧﮯ ﮐﮯ
ﺑﻌﺪ ﻗﺪﺭ ﮐﯽ ﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﻓﺎﺋﺪﮦ۔ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮨﻢ ﺳﺐ ﮐﻮ ﯾﮧ

ﺑﺎﺕ ﺳﻤﺠﮭﻨﮯ ﮐﯽ ﺗﻮﻓﯿﻖ ﻋﻄﺎ ﻓﺮﻣﺎﺋﮯ۔۔۔ﺁﻣﯿﻦ

Friday 21 July 2017

(farooq ahmad, islamabad)


‘‘ایک ملازم شکیل انجم کام کرتے ہوئے بے ہوش ہو گیا تھا سر ۔‘‘ فیکٹری کے مالک فرہاد ضیا کو ان کے مینیجر ذکوان صدیقی نے اطلاع دی ۔
‘‘اوہ ! اوہ ! ‘‘ کب ہوا ایسا‘‘ ؟ فرہاد ضیا نے پریشانی سے پوچھا۔
‘‘اب سے تقریباََ دو گھنٹے پہلے سر‘‘
‘‘تو اب کہاں ہے وہ؟‘‘ انھوں نے بے قراری سے پوچھا
‘‘اسے فوری ہسپتال بھیج دیا گیا تھا، ابھی ابھی اطلاع آئی ہے کہ اسے دل کا دورہ پڑا ہے۔اس کے گھر والوں کو میں نے فون کر دیا ہے۔ وہ بہت غریب ہے نا سر،اللہ اپنا رحم فرمائے،اسکی تین بیٹیاں ہیں،بیٹا کوئی نہیں ہے ، شکیل اکیلا کمانے والا ہے۔ ابھی کل ہی تو وہ مجھ سے اپنی پریشانی کا ذکر کر رہا تھا۔‘‘
‘‘کیا پریشانی تھی اسے ؟‘‘ انکی بے قراری میں اضافہ ہو نے لگا۔
‘‘ سر وہ لوگ کرائے کے مکان میں رہتے ہیں نا،مالک مکان اچانک مکان خالی کرنے کا کہہ گیا ہے کہ اسے اشد ضرورت ہے ۔ ادھر شکیل انجم کی نظر میں کوئی کرائے کا مکان بھی نہیں ۔ وہ بہت ڈر رہا ہے کہ اگر اس نے سب کو گھر سے باہر نکال کھڑا کیا تو وہ کہاں جائیں گے ۔ اس کا کوئی قریبی رشتہ دار بھی نہیں ہے ۔ شاید یہی پریشانی دل کے دورے کا سبب بنی ہو۔‘‘مینیجر ذکوان صدیقی اتنا کہہ کر خاموش ہو گیا۔
‘‘تم نے مجھے پہلےکیوں نہیں بتایا ذکوان؟‘‘ فرہاد ضیا افسردگی سے بولے ۔
‘‘ آپ مصروف تھے سر ،میں مناسب وقت ڈھونڈتا رہا،پھر ایسا نہ ہو سکا تو میں نے سوچا،کل ذکر کر دونگا ۔ آپ نے میرے ذمے یہ کام سونپا ہوا ہے سر کہ ہر ملازم کی ضرورت کا خیال رکھوں ۔ ان کے حالات کی خبر گیری کرتا رہوں ۔اس میں مجھ سے کوتاہی ہوئی،میں شرمندہ ہوں سر۔‘‘
‘خیر چلو میرے ساتھ۔‘ یہ کہہ کر وہ فوراَ ہی کرسی سے اٹھ کر گاڑی کی طرف بڑھے ذکوان صدیقی بھی تیز تیز قدم بڑھاتے ان کے پیچھے چل دیئے ہسپتال پہنچ کر وہ شکیل سے ملے جسے ہوش میں آچکا تھا۔
‘‘اب کیسی طبیعت ہے آپکی ؟‘‘ انھوں نے پوچھا۔
‘‘جی پہلے سے کچھ بہتر محسوس کر رہا ہوں سر‘‘
‘‘آپ بے فکر رہیں ، مکان کا انتظام ہو گیا ہے،آج ہی آپ اس مکان مین شفٹ ہو رہے ہیں۔ آپ کا سارا سامان وغیرہ وہاں پہنچ جائے گا اور آپ کو بھی انشاللہ جلد چھٹی مل جائے گی۔اور گھر والوں کی طرف سے بے فکر رہیئے گا، انکی ہر ضرورت کا خیال رکھا جائے گا۔‘‘
‘‘مم!میں کس منہ سے آپ کا شکریہ ادا کروں سر؟‘‘
‘‘اسکی کوئی ضرورت نہیں ہے،آپ بس مطمئن رہیں ‘‘یہ کہہ کر انھوں نے ایک ملازم کو اس کے پاس چھوڑا اور خود فیکٹری کی طرف روانہ ہو گئے۔ 
شام تک شکیل انجم کا سارا سامان اور گھر والے نئے مکان میں شفٹ ہو چکے تھے ۔ یہ مکان ابھی کچھ دن پہلے ہی انھوں نے کرائے پر دینے کے غرض سے خریدا تھا ۔اسکے علاوہ ان کے اور بھی کئی مکان تھے جو سب کرائے پر چڑھے ہوئے تھے،بہرحال اس مکان میں اب شکیل انجم کے گھر والے شفٹ ہو گئے تھے۔ فرہاد ضیا نے ٢٠ ہزار روپے بھی انھیں بھیج دیئے تھے تاکہ ضرورت کے وقت کام آجائیں ، اور شکیل انجم کو مکمل آرام کا مشورہ بھی دیا تھا،ساتھ ہی یہ اطمینان بھی کرادیا تھا کہ تنخواہ بھی وقت سے پہلے گھر پہنچ جائے گی۔ ادھر انکے مینیجر ذکوان انکی اس بے چینی کو بہت زیادہ محسوس کر رہا تھا۔ وہ فرہاد ضیا کی خدا ترسی اور انسانی ہمدردی کے جذبے سے اچھی طرح واقف تھے مگر شکیل انجم کے معاملے میں انکی غیر معمولی دلچسپی انکی سمجھ سے بالاتر تھی۔
‘‘فیکٹری کے مالک بہت نیک اور سخی آدمی ہیں۔اللہ پاک انکی زندگی خوشیوں سے بھر دے۔انھوں نے سب کچھ خود ہی کرایا۔مکان بھی دیا اور دوسری جگہ شفٹ ہونے میں کسی قسم کی تنگی محسوس نہ ہونے دی اور پھر ٢٠ ہزار روپے اور بہت سارا سامان بھی گھر بھیجا ہے ۔ دنیا ابھی نیک لوگوں سے خالی نہیں ہے‘‘شکیل انجم کی بیوی ہسپتال میں کہے شکیل انجم سے کہہ رہی تھی۔
شکیل انجم کہیں دور خلاؤں میں گھورتے ہوئے بولا۔۔۔ ‘‘تم ! تم جانتی ہو وہ کون ہے‘‘
‘‘کون ہیں‘‘
‘‘وہ! وہ میرے چچا کا بیٹا ہے،میری چچی تو فرہاد انجم کے بچپن میں ہی فوت ہوگئی تھیں۔میرے چچا فوت ہوئے تو میرے بابا نے اسے جوانی میں گھر سے نکال کر اس کے حصے پر قبضہ کر لیا تھا اور اسکو گھر سے نکالنے میں سب سے زیادہ ہاتھ میرا تھا اور میں اپنے کئے کی سزا بھگت چکا ہوں بلکہ بھگت رہا ہوں۔وہ اس مقام تک کیسے پہنچا ۔یہ میں نہیں جانتا،ہاں! میں یہ اچھی طرح جانتا ہوں کہ یہ وہی میرے چچا کا لڑکا ہے جسے ہم نے مار کر گھر سے نکال دیا تھا۔اور پھر کبھی یہ جاننے کی کوشش بھی نہیں کی تھی کہ وہ کہاں ہے۔‘‘
‘‘شکر کریں انھوں نے آپ کو پہچانا نہیں!اگر پہچان لیتے تو آپ اتنی اچھی نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھتے اور اتنے اچھے لوگوں سے بھی ،جنہوں نے ہر موقعے پر ہمارا ساتھ دیا۔‘‘
‘‘ہاں! پہچان لیتا تو اپنی فیکٹری میں ملازمت ہی کیوں دیتا اسی وقت دھکے دے کر باہر نکال دیتا۔‘‘

‘‘معاف کیجیئے گا سر میں نے آپ کو ڈسٹرب کیا۔‘‘مینیجر ذکوان صدیقی آفس میں داخل ہوتے ہوئے بولے۔فرہاد ضیا نے اخبار سے نظریں ہٹا کر انہیں بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
‘‘ہوں بولو۔‘‘
‘‘میں ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں سر، آپ ناراض تو نہیں ہونگے۔‘‘
‘‘ہوں پوچھو۔‘‘انھوں نے اخبار ایک طرف رکھ دیا۔
‘‘ میں جانتا ہوں سر کہ آپ غریبوں کی مدد کر نے میں ہمیشہ پیش پیش رہتے ہیں۔اوروں کی مدد کا جذبہ آپ کے اندر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ھے،مگر شکیل انجم کے معاملے میں آپکی غیر معمولی دلچسپی اور بے قراری سے لگتا ہے کہ آپ کے اور اس کے درمیان کوئی خاص بات ہے۔‘‘
فرہاد ضیا نے نظر اٹھا کر ان کی طرف دیکھا
‘‘سوری سر! آپ مجھ سے کوئی بات نہیں چھپاتے، ہر بات کھل کر کرلیتے ہیں،بس اسی لیئے میں پوچھ بیٹھا، جہاں تک میرٰی معلومات ہیں، شکیل انجم سی آپکی کوئی رشتہ داری بھی نہیں ہے اور!اور سر مجھے یاد پڑتا ہے ، چار سال پہلے جب شکیل انجم ملازمت لینے آیا تھا تو آپ اسے دیکھ کر چونکے تھے اور پھر کوائف پورے نہ ہونے کے باوجود آپنے اسے ملازمت دے دی تھی۔اس دن سے آج تک آپ اسکی ضروریات کا خیال اوروں سے زیادہ رکھتے ہیں۔‘‘
فرہاد ضیا کچھ دیر تک خاموشی سے ایک طرف تکتے رہے ۔پھر کچھ دیر بعد انکے لبوں میں جنبش ہوئی۔
‘‘میں نے آج تک اس بات کا کسی سے ذکر نہیں کیا ،یہاں تک کہ اپنی بیوی سے بھی نہیں۔مگر اب میں محسوس کر رہا ہوں کہ میں یہ بات آپکو بتائے بغیر نہیں رہ سکوں گا۔دراصل شکیل میرے چچا کا بیٹا ہے ۔جانتے ہو کس چچا کا؟‘‘ اتنا کہہ کر وہ سانس لینے کے لئے رکے۔
‘‘یاد ماضی عذاب ہے یارب۔‘‘ انکے منہ سے ایک آہ کے ساتھ غیر اختیاری طور پر نکل گیا۔ انکی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں۔ کچھ دیر بعد وہ خود کو سنبھالتے ہوئے گویا ہوئے:
‘‘فرہاد میرے چچا کا بیٹا ہے ،جنہوں نے مجھے!مجھے یتیم اور مسکین ہونے کے بعد گھر سے نکال دیا تھا اور مجھے گھر سے نکالنے میں شکیل کا سب سے زیادہ ہاتھ تھا۔وہ میری موجودگی کسی طور برداشت نہیں کرتا تھا۔ادھر میں اپنے چچا سے ہر اس چیز کی فرمائش کر دیتاتھا جو فرہاد کے لئے آتی تھی۔اس بات سے تنگ آکر انہوں نے مجھے کئی بار گھر سے نکالا،مگر میں کہاں جاتا شام کو پھر گھر آجاتا تھا۔وہ مجھے طعنے دے کر اور میرے دوسرے چچا کی سفارش پر رکھ لیتے تھے۔‘‘
‘‘پھر ایک بار تو انتہا ہو گئی،انھوں نے مجھے بہت مارا اور قسم کھالی کہ اب اس گھر میں داخل نہیں ہونے دیں گے ۔ میں بھی بس اس گھر میں نہیں رہنا چاہتا تھا۔سو میں نکل گیا نا معلوم منزل کی طرف۔ ہاں بگولے میں اڑجانے والے کاغذکی طرح یا کسی کٹی ہوئی پتنگ کی طرح جس کی کوئی منزل نہیں ہوتی۔‘‘اتنا کہہ کر انہوں نے ٹھنڈی آہ بھری ۔کچھ دیر تک وہ خاموش رہے ، پھر ایک سمت میں نظریں جمائے کہنے لگے
‘‘قدرت کے کام بہت انوکھے اور عجیب ہوتے ہیں۔ ہماری نا قص عقل انھیں دیکھنے سے قاصر ہے یا یوں کہ لیجئے کہ جہاں ہماری عقل کی انتہا ہوتی ہے، وہاں سے قدرت کے کاموں کی ابتدا ہوتی ہے۔مجھے میرے رب نے اچھا ٹھکانہ بھی دیا،اعلیٰ تعلیم بھی اور بہترین کاروبار بھی۔ مختصراً بتا دیتا ہوں کہ اعلیٰ خاندان کے ایک نیک آدمی کے ہاتھ لگ گیا تھا اور اللہ کی مہربانی سے آج اس مقام پر ہوں۔‘‘ اتنا کہہ کر انہوں نے مینیجر کی طرف دیکھا جو دنیا و ما فیھا سے بے خبر ان کی داستان سننے میں محو تھا۔
‘‘تقریباََ مجھے گھر سے نکالنے کے پانچ سال بعد میرے بڑے چچا فوت ہو گئے۔‘‘
‘‘تو اسکے کچھ عرصے بعد میرے دوسرے چچا نے شکیل اور اسکی والدہ کو بالکل اسی طرح دھکے دے کر گھر سے نکال دیا۔ وہ بھی میری طرح ان کے خلاف کچھ نہ کر سکے۔ پھر انہوں نے بڑی مشکل سے کرائے پر گھر حاصل کیا۔ پھر اس دن سے ان کے گھر میں غربت نے ڈیرے ڈال دیے ۔ میں یہ سب جانتا ہوں ۔ تھوڑے عرصے بعد میں اس علاقے کا چکر لگا کر حالات معلوم کر لیتا تھا۔ بس بے چینی سی تھی اور اب جہاں تک میرا خیال ہے شکیل یہ سمجھتا ہے کہ میں نے اسے نہیں پہچانا مگر میں اسے کبھی نہیں بھول سکتا ، کیونکہ اسکے چہرے کے نقوش میرے بابا جان سے ملتے ہیں ۔ بس یہ ہے کل کہانی۔‘‘
یہاں تک کہہ کر انھوں نے مینیجر کی طرف دیکھااور بھر پور انداز میں مسکرا دیےاور ادھر مینیجر حیرت سے منہ کھولے فرہاد ضیا کو تک رہا تھا جیسے کہنا چا رہا ہو
‘‘آپ ہیں کیا چیز‘‘
 

( SHARE YOUR STORIES WITH US )

Jinn Or Insan(Afshan Rahman, Chicago usa)

Hum Tv Per Morning Show Dekha Jo Jinn Keh Baare Mein Hoowa Tha.Kiren Or Fahad Ne Kuch Logon Se Interwiew Kia Tha Kuch Logon Ke Phone Bhi Aae Thay.Ek Sahiba Ne Phone Kia Or Waqea Sonna Ya Keh Woh Jinn Keh Saath Rehtee Hein Jub Kafi Der Tak Khatoon Story Sonna Raee Theen Kiren Ki Der Ker Tabiat Kharaab Hogaee Or Woh Water Mangne Lageen To Fahad Ne Break Lia Or Baat Adhree Reh Gaee Sab Se Pehlee Baat Keh Jinnat Ka Zeeker Koee Chotee Baat Nahi Hay Yeh To Al Quran Mein Allah Tallah Ne Fermayya Hay Keh Hum Ne Jinn Or Insaano Ko Apni Ebadet Keh Lia Peda Kia Hay Goyya Jiin Ka Ziker Insaan Keh Saath Saath Kia Gayya Hay.Jinn Keh Naam Se Ek Der Sa Hotta Hay Kioon Keh Yeh Maqlooq Zaher Naee Hay Chupee Howee Hay .Jinnat Mein Ache Or Boore Hote Hein Jis Terha Insanon Mein Bhi Ache Boore Hein .Mene Bhi Ek Waqiaa Sonna Tha Keh Mere Tayya Keh Gher Per Bhi Jinn Rete Thay Meree Tayee Ammi Ne Mujhe Story Sonaee Thee Ek Din Woh Kitchen Mein Cooking Keraee Theen On Ko Awaz Aee Keh Mujhe Khanna Dedo Onon Ne Ktichen Se Baher Jaraee Theen To Ek Long Sa Insaan Ki Terha Aadmi Dekha Woh Der Gaeen.Phir Akser On Ko Nazer Aane Laga Ek Din Kuch Powder Sa Laker On Per Dalla.Kabhi Raat Ko Chalne Ki Awazen Atee Then.Karachi City Mein Ab Bhi Log Jiin Ke Waqae Sonate Hein .Ek Islamic Center Mein Teacher Ne Bataya Keh Aetal Kursee Perh Ker Surah Jinn Ki Pehlee 5 Ayat Perhne Se Jiin Ka Aser Jatta Hay.Canada Mein Bhi Ek Women Per Jiin Ne Qabza Kiaa Tha Newspaper Mein Waqya Ayya Thaa.Tv Shows Log Bhut Shoq Se Dekhte Hein Lehza Woh Programme Ko Compelete Kerne Ki Zarroret Hay Pehle Kiren Ko Ese Programme Ke Lia Ready Kernee Chae Thee.Wese I Like Scary Movies.Jab Bhi Gher Mein Dakhil Hoon Salaam Zaroor Karen Or Kalma Perna Chae Or Muslim Ban Jao Yeh Bhi Kehna Chae Ager Jinn Sun Rae Hein To Shaed Woh Bhi Muslim Hojae Or Logon Ko Nukhsaan Na Ponchae.Jago Pakistan Jago Ye Morning Show Bhut Acha Jaraha Hay .Khuda Kare Jiinat Ka Programmes Ko Compelete Dekhayya Jae.Taake Log Ko Faeda Ho Or Jiin Ka Der Na Rahe. Ameen.

Monday 10 July 2017

HORROR STORY SAAD FROM PAKISTAN

Ye aaj say taqreeban 13 saal pehlay ki baat hai. Jab may class 6th may parta tha. School kay door honay ki waja say may apny uncle kay ghr may rehnay laga or wo b jab meray final exam ho rhay thay.

Meray 4 cousin hain un may sab say bara jiska naam Shahid isi taraha bil tarteeb Ahsan, Shahzad & Saqib.
In may say jo Shahid bhai hain unhon nay pehlay ghar walon k sath baat ki q k wo raat ko der tak study krtay thay or koi na koi raat ko un k sath waqiya pesh aajata tha magr ghr walay uski baton pr yaqeen nai krtay thay..

Acha un may say meri sab say ziada dosti Shahzad say thi aik din raat ko ham log so rhay thay or achanak meri aankh khuli kamray m koi roshni nai thi… m nay kia dekh? K Shahzad bhai jo wo meri taraf dekh rhay hain or muskura rhay hain. Usi lamhay m nay unko kaha k kia baat hai sojao itni raat hai or aap jag rahay ho to unhon nay muje jawab nai dia.

Itnay m muje khayal aya k itnay andhera hai magr vo pr b muje dikhai day raha hai. Bahot ajeeb hai m nay itnay m usko mazaqan thaper day mara to mera haath us k chehray k ander say guzar gaya matlab usko kuch na hua. Or meri nazrain uski aankon m pari to m kia dekhta hoon k uski ankhain bilkul kaali jesay hamari ankhon m sufaidi hoti hai uski ankhoon m nai thi…

Phr m dar gaya k ye Shahzad bhai nahi ye koi or bhai hain or m nay sari raat sonay ki koshish ki magr naa so saka har taraf say wo muje drata tha. Phr m nay saray ghr walon ko jaga dia,, or abi b m nay ye likha hai or meray rongtay uray huay hain…

Is k baad m jab papers khatam kr kay ghr gaya to wohan b unhon nay mera peecha nai chora.

Ghar m wo jin tha ya pari kuch keh nai sakta wo meri ami ki shakal m ati thee. Or jab m dekhta tha to m usko ami kehta tha to ami ki awaz un k room say ati thee or jawab deti theen q beta kia hai. Or itnay m wo jo ami ki shakal m ati thee ghaeb hojati thi. Or m apna moon bistar m dhanp deta tha…mgr jab tak wo khari rehti thi to muje uski roshni dikhai deti thi…

Or aik din garmiyon ka mausam tha or ham sab log apnay ghr may bahir sehan may so rhay thay k achanaq muje nalka (pani wala hand pump) k chalnay ki awaz ai or may nay kaha ami kher to hai to ami apni charpai pr theen kehnay lagain kia hua beta may nay kaha nalka per kon hai? Ami boli koi nahi hai….halan k muje wo dikhai b dee thi…

Is taraha k kai waqiyat pesh aey or dosto yaqeen kro raat meray liye azab ban kr aati har din k baad.

Isi tarah aik din jab meri dadi ki behn hamaray ghar may aien to meray ghar walon nay ye sab un ko bataya….to unka jawab kia tha….?

Beta ye pari hai jo teri ami ki shakal m ati hai or aap say dosti krna chati hai isi waja say ye tumari ami ki shakal m ati hai. agr ab ki baar aey to usko bola ker sath bethnay ko kehna to wo ap k sath beth jaegi ager beth jai to bismillah per ker us say baat krna or usko kehna m teray sath dosti krta hoon agr tum muslim ho to….! Or agr wo javab day k haan may muslim hoon to us say Pehla Kalma sunna. Agr wo muslim hui to aapko suna daygi. Ager kafir hui to chali jaegi…..

Inhi baton k doran meri dadi ki behn yeni dadi nay kaha k wo muje umeed hai ye batain sun rahi hogi….
Or unhuno nay kaha ager wo muslim hai to beta teri baat ban jaegi…
Or aaj tak may dadi say pochta hoon mgr dadi muje javab nahi deti hain k kesay baat ban jaegi…

Or meray dosto muje lgta hai us nay sab batain sun li theen q k us k baad aaj kay din tak may nay kisi jin pari ko nai dekha or na ab darta hoon…

Ye thi jee hamari jino, or pariyon wali kahani…

Or ab may khas kr wo log jo jino or pariyon per yaqeen nahi rkhtay kehna chata hoon k bhai ye sach hai…
Bal k Quran Kareem may bi is ka zikar hai….jo Allah ki akhri kitaab hai or Aap SAW per utaari gai…