Sunday 30 July 2017
اور پھر دوستی ہار گئی
Saturday 29 July 2017
ترقی میں رکاوٹ بننے والے شخص کی میت
Friday 28 July 2017
Wednesday 26 July 2017
MERE DARD KE KOE DAWA NAI
اک سچی کہانی نہ فرمان اولاد
ﮐﺴﯽ ﮔﺎﺅﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻋﻮﺭﺕ ﺍﭘﻨﮯ ﭘﺎﻧﭻ ﺳﺎﻝ ﮐﮯ ﭼﮭﻮﭨﮯ
ﺑﭽﮯ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺭﮨﺘﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﮐﭽﮫ ﻣﺎﮦ ﻗﺒﻞ ﺍُﺱ ﮐﮯ ﺷﻮﮨﺮ ﮐﺎ
ﺍﻧﺘﻘﺎﻝ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﻟﮩٰﺬﺍ ﯾﮧ ﻋﻮﺭﺕ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﮐﻠﻮﺗﮯ ﺑﯿﭩﮯ ﮐﯽ
ﺗﻌﻠﯿﻢ ﻭ ﺗﺮﺑﯿﺖ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺧﻮﺩ ﮨﯽ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﮔﮭﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ
ﮐﺎﻡ ﮐﺮﺗﯽ، ﺍُﻧﮑﮯ ﺑﺮﺗﻦ ﻣﺎﻧﺠﮭﺘﯽ، ﮐﭙﮍﮮ ﺩﮬﻮﺗﯽ ﺍﻭﺭ ﺍُﻧﮑﮯ
ﺑﮍﮮ ﺑﮍﮮ ﮔﮭﺮﻭﮞ ﮐﻮ ﯾﮧ ﺍﮐﯿﻠﯽ ﻋﻮﺭﺕ ﺗﻦ ﺗﻨﮩﺎ ﺻﺎﻑ
ﮐﺮﺗﯽ ﺗﺎﮐﮧ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﯿﭩﮯ ﮐﯽ ﺑﻨﯿﺎﺩﯼ ﺿﺮﻭﺭﺗﻮﮞ ﮐﻮ ﭘﻮﺭﺍ ﮐﺮ ﺳﮑﮯ۔
ﻭﻗﺖ ﮔﺰﺭﺗﺎ ﮔﯿﺎ، ﺍﻭﺭ ﮐﺌﯽ ﺳﺎﻝ ﺑﯿﺖ ﮔﺌﮯ۔ ﺍﺏ ﺍِﺱ ﮐﺎ ﺑﯿﭩﺎ
ﺟﻮﺍﻥ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﺴﯽ ﺍﭼﮭﯽ ﮐﻤﭙﻨﯽ ﻣﯿﮟ ﻧﻮﮐﺮﯼ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﺎ۔ ﺍُﺳﮑﯽ ﺷﺎﺩﯼ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﺗﮭﯽ، ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﭘﯿﺎﺭﺍ ﺳﺎ
ﺑﯿﭩﺎ ﺑﮭﯽ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﻋﻮﺭﺕ ﺍﺏ ﺑﮍﮬﺎﭘﮯ ﮐﯽ ﺩﮨﻠﯿﺰ ﭘﺮ
ﺩﺳﺘﮏ ﺩﮮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔
ﺑﯿﭩﺎ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﻭﺭ ﻧﻮﮐﺮﯼ ﻣﻠﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﺎﮞ ﮐﺎ
ﺍﺣﺘﺮﺍﻡ ﮐﺮﻧﺎ ﺗﻮ ﺩﻭﺭ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﺍُﺳﮑﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮈﮬﻨﮓ ﺳﮯ ﺑﺎﺕ
ﺑﮭﯽ ﻧﮧ ﮐﺮﺗﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺍِﺱ ﺑﻮﮌﮬﯽ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ
ﺻﺮﻑ ﺍﺗﻨﺎ ﻓﺮﻕ ﺁﯾﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﭘﮩﻠﮯ ﯾﮧ ﻏﯿﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﺑﺮﺗﻦ ﺍﻭﺭ
ﮐﭙﮍﮮ ﺩﮬﻮﺗﯽ ﺗﮭﯽ، ﺍﺏ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﮩﻮ ﺑﯿﭩﮯ ﮐﮯ ﺟﻮﭨﮭﮯ ﺑﺮﺗﻦ
ﺩﮬﻮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ، ﭘﮩﻠﮯ ﯾﮧ ﺩﻭﺳﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﮔﮭﺮﻭﮞ ﮐﯽ ﺻﻔﺎﺋﯽ
ﮐﺮﺗﯽ ﺗﮭﯽ، ﺍﺏ ﯾﮧ ﺑﮩﻮ ﮐﮯ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﯽ
ﺻﻔﺎﺋﯽ ﮐﺮﻧﮯ ﭘﺮ ﻣﺠﺒﻮﺭ ﺗﮭﯽ۔
ﺧﯿﺮ ﺟﻮ ﺑﮭﯽ ﺗﮭﺎ، ﻟﯿﮑﻦ ﺗﮭﯽ ﺗﻮ ﯾﮧ ﺍﯾﮏ ﻣﺎﮞ، ﺍﭘﻨﮯ ﺑﯿﭩﮯ
ﮐﯽ ﺧﻮﺷﯽ ﮐﯽ ﺧﺎﻃﺮ ﻭﮦ ﮨﺮ ﺩُﮐﮫ ﺟﮭﯿﻠﻨﮯ ﮐﻮ ﺗﯿﺎﺭ ﺗﮭﯽ۔
ﺑﯿﭩﮯ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺩﻭﻟﺖ ﮐﯽ ﮐﻤﯽ ﻧﮧ ﺗﮭﯽ، ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﺩﯼ ﮨﻮﺋﯽ
ﮨﺮ ﭼﯿﺰ ﺍﺏ ﺍُﺳﮑﮯ ﭘﺎﺱ ﺗﮭﯽ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﺎﮞ ﮐﻮ ﺍُﺱ ﻧﮯ ﮔﮭﺮ
ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﺍﻟﮓ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﭼﮭﻮﮌ ﺭﮐﮭﺎ ﺗﮭﺎ ﺟﮩﺎﮞ ﻣﻮﺳﻢ ﮐﯽ
ﺷﺪﺕ ﮐﻮ ﺭﻭﮐﻨﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﻨﺪﻭﺑﺴﺖ ﻧﮧ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﻭﺭ ﮐﺌﯽ
ﮐﺌﯽ ﺩِﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺟﺐ ﮐﺒﮭﯽ ﻭﮦ ﺍُﺱ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﺗﺎ
ﺗﻮ ﺻﺮﻑ ﻣﺎﮞ ﮐﻮ ﮔﺰﺭﮮ ﻭﻗﺖ ﮐﯽ ﻣﺤﺮﻭﻣﯿﺎﮞ ﯾﺎﺩ ﮐﺮﻭﺍ
ﮐﺮ ﻃﻌﻨﮯ ﺩﯾﻨﮯ ﺍﻭﺭ ﻟﮍﻧﮯ ﺟﮭﮕﮍﻧﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ۔
ﺍﯾﮏ ﺩِﻥ ﺳﺮﺩﯾﻮﮞ ﮐﯽ ﯾﺦ ﺑﺴﺘﮧ ﺷﺎﻡ ﻣﯿﮟ ﺍُﺳﮑﯽ ﻣﺎﮞ
ﺍﯾﮏ ﭘﮭﭩﮯ ﭘُﺮﺍﻧﮯ ﮐﻤﺒﻞ ﻣﯿﮟ ﺳُﮑﮍ ﮐﺮ ﺑﯿﭩﮭﯽ ﯾﮧ ﺳﻮﭺ ﺭﮨﯽ
ﺗﮭﯽ ﮐﮧ، ” ﺁﺝ ﺍُﺳﮑﺎ ﺑﯿﭩﺎ ﮐﺎﻡ ﺳﮯ ﻭﺍﭘﺲ ﺁﺋﮯ ﮔﺎ ﺗﻮ ﻭﮦ
ﺍﺳﮯ
ﻧﺌﮯ ﮐﻤﺒﻞ ﮐﺎ ﮐﮩﮯ ﮔﯽ، ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍِﺱ ﮐﻤﺒﻞ ﻣﯿﮟ ﺍُﺳﮯ ﺑﮩﺖ
ﺳﺮﺩﯼ ﻟﮓ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ، ﺍﻭﺭ ﺍﺏ ﺍُﺳﮑﯽ ﮐﻤﺰﻭﺭ ﮨﮉﯾﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﺍِﺱ ﺳﺮﺩﯼ ﮐﻮ ﺑﺮﺩﺍﺷﺖ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﮨﻤﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﯽ۔ ﺍﻭﺭ
ﺍُﺳﮯ ﭘﻮﺭﺍ ﯾﻘﯿﻦ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍُﺳﮑﺎ ﺑﯿﭩﺎ ﺍﺳﮑﯽ ﯾﮧ ﻣﻌﻤﻮﻟﯽ ﺳﯽ ﺳﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﭘﻮﺭﯼ ﮐﺮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺗﺎﺀﻣﻞ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﮮ ﮔﺎ۔
ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﺑﯿﭩﺎ ﮔﮭﺮ ﺁﯾﺎ ﺗﻮ ﻣﺎﮞ ﻧﮯ ﺑﮍﮮ ﭘﯿﺎﺭ ﺳﮯ ﺍُﺳﮯ ﻧﺌﮯ
ﮐﻤﺒﻞ ﮐﺎ ﮐﮩﺎ ﺗﻮ، ﺑﯿﭩﺎ ﻏﺼﮯ ﺳﮯ ﺑﻮﻻ، ” ﻣﺎﮞ ! ﺍﺑﮭﯽ ﺍﺑﮭﯽ
ﻣﯿﮟ ﮐﺎﻡ ﺳﮯ ﺁﯾﺎ ﮨﻮﮞ، ﺍﻭﺭ ﺁﺗﮯ ﮨﯽ ﺗﻢ ﺍﭘﻨﺎ ﻣﻄﺎﻟﺒﮧ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺁ
ﮔﺌﯽ ﮨﻮ۔ ﺍﻭﺭ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﭘﺘﮧ ﮨﮯ ﮐﺘﻨﯽ ﻣﮩﻨﮕﺎﺋﯽ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ۔
ﺍﺑﮭﯽ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﭘﻮﺗﮯ ﮐﻮ ﺍﺳﮑﻮﻝ ﺩﺍﺧﻞ ﮐﺮﻭﺍﻧﺎ ﮨﮯ، ﺍُﺳﮑﺎ
ﯾﻮﻧﯿﻔﺎﺭﻡ ﺍﻭﺭ ﮐﺘﺎﺑﯿﮟ ﻟﯿﻨﯽ ﮨﯿﮟ، ﮔﺎﮌﯼ ﮐﯽ ﻗﺴﻂ ﺍﺩﺍ
ﮐﺮﻧﯽ ﮨﮯ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﻟﯿﮯ ﺟﯿﮑﭧ ﺧﺮﯾﺪﻧﯽ ﮨﮯ،
ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺑﮩﻮ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺷﺎﻝ ﻻﻧﯽ ﮨﮯ۔
ﺗﻢ ﺗﻮ ﺳﺎﺭﺍ ﺩِﻥ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﺭﮨﺘﯽ ﮨﻮ، ﺗﻤﮩﯿﮟ ﮐﻤﺒﻞ ﮐﯽ
ﺍﺗﻨﯽ ﮐﯿﺎ ﺍﺷﺪ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﺁﻥ ﭘﮍﯼ ﮨﮯ؟ ﮨﻢ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﺗﻮ ﺑﺎﮨﺮ
ﮔﮭﻮﻣﻨﮯ ﺟﺎﻧﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ، ﺗﻢ ﮐﺴﯽ ﻃﺮﺡ ﯾﮧ ﺳﺮﺩﯾﺎﮞ ﮔﺰﺍﺭ
ﻟﻮ، ﺍﮔﻠﮯ ﺳﺎﻝ ﺳﺮﺩﯾﻮﮞ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﮐﻤﺒﻞ ﮐﺎ
ﮐﭽﮫ ﺑﻨﺪﻭﺑﺴﺖ ﮐﺮ ﺩﻭﻧﮕﺎ۔۔۔ “!
ﺑﻮﮌﮬﯽ ﻣﺎﮞ ﺧﻮﻥ ﮐﮯ ﺁﻧﺴﻮ ﭘﯽ ﮐﺮ ﭼُﭗ ﭼﺎﭖ ﺍﭘﻨﮯ
ﺑﻮﺳﯿﺪﮦ ﺣﺎﻝ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﻭﺍﭘﺲ ﺁ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﭩﮯ ﮨﻮﺋﮯ
ﮐﻤﺒﻞ ﮐﻮ ﺍﻭﮌﮪ ﮐﺮ ﭨﻮﭨﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﭼﺎﺭﭘﺎﺭﺋﯽ ﮐﮯ ﮐﻮﻧﮯ ﻣﯿﮟ
ﺳُﮑﮍ ﮐﺮ ﻟﯿﭧ ﮔﺌﯽ۔
ﺻﺒﺢ ﺟﺐ ﺑﯿﭩﮯ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮫ ﮐﮭﻠﯽ ﺗﻮ ﭘﺘﮧ ﭼﻼ، ﭘﭽﮭﻠﯽ ﺭﺍﺕ
ﻣﺎﮞ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﻮ ﭘﯿﺎﺭﯼ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ۔ ﺑﯿﭩﮯ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﺭﺷﺘﮯ
ﺩﺍﺭﻭﮞ ﮐﻮ ﻣﺎﮞ ﮐﮯ ﺟﻨﺎﺯﮮ ﭘﺮ ﺑﻼﯾﺎ۔ ﺍﻭﺭ ﻣﺎﮞ ﮐﮯ ﮐﻔﻦ
ﺩﻓﻦ ﺍﻭﺭ ﻣﮩﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﺧﺎﻃﺮ ﻣﺪﺍﺭﺕ ﭘﺮ ﻻﮐﮭﻮﮞ ﺭﻭﭘﮯ
ﺧﺮﭺ ﮐﯿﮯ۔ ﺟﻮ ﺑﮭﯽ ﺟﻨﺎﺯﮮ ﻣﯿﮟ ﺷﺮﯾﮏ ﮨﻮﺍ، ﯾﮩﯽ ﮐﮩﺘﺎ
ﮐﮧ، ” ﮐﺎﺵ ! ﺍﻟﻠﮧ ﮨﺮ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺍﯾﺴﺎ ﺑﯿﭩﺎ ﺩﮮ، ﻣﺮﻧﮯ ﮐﮯ
ﺑﻌﺪ
ﺑﮭﯽ ﻣﺎﮞ ﺳﮯ ﮐﺘﻨﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﮨﮯ۔ “!
ﻟﯿﮑﻦ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﯾﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﺘﮧ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ، ﺩﻧﯿﺎ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﺩِﮐﮭﺎﻧﮯ
ﮐﯽ ﺧﺎﻃﺮ ﺟﻮ ﺑﯿﭩﺎ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺮﯼ ﮨﻮﺋﯽ ﻣﺎﮞ ﮐﮯ ﺟﻨﺎﺯﮮ ﭘﺮ
ﻻﮐﮭﻮﮞ ﺭﻭﭘﮯ ﺧﺮﭺ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ، ﭘﭽﮭﻠﯽ ﺭﺍﺕ ﭼﻨﺪ ﺳﻮ
ﺭﻭﭘﮯ ﮐﮯ ﮐﻤﺒﻞ ﮐﮯ ﻧﮧ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﻭﮨﯽ ﻣﺎﮞ
ﺳﺮﺩﯼ ﻣﯿﮟ ﺳﺴﮏ ﺳﺴﮏ ﮐﺮ ﺟﺎﻥ ﺩﮮ ﮔﺌﯽ۔
===================================
ﻣﯿﺮﮮ ﻋﺰﯾﺰ ﺩﻭﺳﺘﻮ ! ﺍﭘﻨﮯ ﻣﺎﮞ، ﺑﺎﭖ ﮐﯽ ﻗﺪﺭ ﺍُﻧﮑﮯ
ﺟﯿﺘﮯ
ﺟﯽ ﮐﺮﻭ، ﺍِﺳﯽ ﻣﯿﮟ ﮨﻢ ﺳﺐ ﮐﯽ ﺑﮭﻼﺋﯽ ﮨﮯ۔ ﻣﺮﻧﮯ ﮐﮯ
ﺑﻌﺪ ﻗﺪﺭ ﮐﯽ ﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﻓﺎﺋﺪﮦ۔ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮨﻢ ﺳﺐ ﮐﻮ ﯾﮧ
ﺑﺎﺕ ﺳﻤﺠﮭﻨﮯ ﮐﯽ ﺗﻮﻓﯿﻖ ﻋﻄﺎ ﻓﺮﻣﺎﺋﮯ۔۔۔ﺁﻣﯿﻦ
Friday 21 July 2017
(farooq ahmad, islamabad)
‘‘ایک ملازم شکیل انجم کام کرتے ہوئے بے ہوش ہو گیا تھا سر ۔‘‘ فیکٹری کے مالک فرہاد ضیا کو ان کے مینیجر ذکوان صدیقی نے اطلاع دی ۔
‘‘اوہ ! اوہ ! ‘‘ کب ہوا ایسا‘‘ ؟ فرہاد ضیا نے پریشانی سے پوچھا۔
‘‘اب سے تقریباََ دو گھنٹے پہلے سر‘‘
‘‘تو اب کہاں ہے وہ؟‘‘ انھوں نے بے قراری سے پوچھا
‘‘اسے فوری ہسپتال بھیج دیا گیا تھا، ابھی ابھی اطلاع آئی ہے کہ اسے دل کا دورہ پڑا ہے۔اس کے گھر والوں کو میں نے فون کر دیا ہے۔ وہ بہت غریب ہے نا سر،اللہ اپنا رحم فرمائے،اسکی تین بیٹیاں ہیں،بیٹا کوئی نہیں ہے ، شکیل اکیلا کمانے والا ہے۔ ابھی کل ہی تو وہ مجھ سے اپنی پریشانی کا ذکر کر رہا تھا۔‘‘
‘‘کیا پریشانی تھی اسے ؟‘‘ انکی بے قراری میں اضافہ ہو نے لگا۔
‘‘ سر وہ لوگ کرائے کے مکان میں رہتے ہیں نا،مالک مکان اچانک مکان خالی کرنے کا کہہ گیا ہے کہ اسے اشد ضرورت ہے ۔ ادھر شکیل انجم کی نظر میں کوئی کرائے کا مکان بھی نہیں ۔ وہ بہت ڈر رہا ہے کہ اگر اس نے سب کو گھر سے باہر نکال کھڑا کیا تو وہ کہاں جائیں گے ۔ اس کا کوئی قریبی رشتہ دار بھی نہیں ہے ۔ شاید یہی پریشانی دل کے دورے کا سبب بنی ہو۔‘‘مینیجر ذکوان صدیقی اتنا کہہ کر خاموش ہو گیا۔
‘‘تم نے مجھے پہلےکیوں نہیں بتایا ذکوان؟‘‘ فرہاد ضیا افسردگی سے بولے ۔
‘‘ آپ مصروف تھے سر ،میں مناسب وقت ڈھونڈتا رہا،پھر ایسا نہ ہو سکا تو میں نے سوچا،کل ذکر کر دونگا ۔ آپ نے میرے ذمے یہ کام سونپا ہوا ہے سر کہ ہر ملازم کی ضرورت کا خیال رکھوں ۔ ان کے حالات کی خبر گیری کرتا رہوں ۔اس میں مجھ سے کوتاہی ہوئی،میں شرمندہ ہوں سر۔‘‘
‘خیر چلو میرے ساتھ۔‘ یہ کہہ کر وہ فوراَ ہی کرسی سے اٹھ کر گاڑی کی طرف بڑھے ذکوان صدیقی بھی تیز تیز قدم بڑھاتے ان کے پیچھے چل دیئے ہسپتال پہنچ کر وہ شکیل سے ملے جسے ہوش میں آچکا تھا۔
‘‘اب کیسی طبیعت ہے آپکی ؟‘‘ انھوں نے پوچھا۔
‘‘جی پہلے سے کچھ بہتر محسوس کر رہا ہوں سر‘‘
‘‘آپ بے فکر رہیں ، مکان کا انتظام ہو گیا ہے،آج ہی آپ اس مکان مین شفٹ ہو رہے ہیں۔ آپ کا سارا سامان وغیرہ وہاں پہنچ جائے گا اور آپ کو بھی انشاللہ جلد چھٹی مل جائے گی۔اور گھر والوں کی طرف سے بے فکر رہیئے گا، انکی ہر ضرورت کا خیال رکھا جائے گا۔‘‘
‘‘مم!میں کس منہ سے آپ کا شکریہ ادا کروں سر؟‘‘
‘‘اسکی کوئی ضرورت نہیں ہے،آپ بس مطمئن رہیں ‘‘یہ کہہ کر انھوں نے ایک ملازم کو اس کے پاس چھوڑا اور خود فیکٹری کی طرف روانہ ہو گئے۔
شام تک شکیل انجم کا سارا سامان اور گھر والے نئے مکان میں شفٹ ہو چکے تھے ۔ یہ مکان ابھی کچھ دن پہلے ہی انھوں نے کرائے پر دینے کے غرض سے خریدا تھا ۔اسکے علاوہ ان کے اور بھی کئی مکان تھے جو سب کرائے پر چڑھے ہوئے تھے،بہرحال اس مکان میں اب شکیل انجم کے گھر والے شفٹ ہو گئے تھے۔ فرہاد ضیا نے ٢٠ ہزار روپے بھی انھیں بھیج دیئے تھے تاکہ ضرورت کے وقت کام آجائیں ، اور شکیل انجم کو مکمل آرام کا مشورہ بھی دیا تھا،ساتھ ہی یہ اطمینان بھی کرادیا تھا کہ تنخواہ بھی وقت سے پہلے گھر پہنچ جائے گی۔ ادھر انکے مینیجر ذکوان انکی اس بے چینی کو بہت زیادہ محسوس کر رہا تھا۔ وہ فرہاد ضیا کی خدا ترسی اور انسانی ہمدردی کے جذبے سے اچھی طرح واقف تھے مگر شکیل انجم کے معاملے میں انکی غیر معمولی دلچسپی انکی سمجھ سے بالاتر تھی۔
‘‘فیکٹری کے مالک بہت نیک اور سخی آدمی ہیں۔اللہ پاک انکی زندگی خوشیوں سے بھر دے۔انھوں نے سب کچھ خود ہی کرایا۔مکان بھی دیا اور دوسری جگہ شفٹ ہونے میں کسی قسم کی تنگی محسوس نہ ہونے دی اور پھر ٢٠ ہزار روپے اور بہت سارا سامان بھی گھر بھیجا ہے ۔ دنیا ابھی نیک لوگوں سے خالی نہیں ہے‘‘شکیل انجم کی بیوی ہسپتال میں کہے شکیل انجم سے کہہ رہی تھی۔
شکیل انجم کہیں دور خلاؤں میں گھورتے ہوئے بولا۔۔۔ ‘‘تم ! تم جانتی ہو وہ کون ہے‘‘
‘‘کون ہیں‘‘
‘‘وہ! وہ میرے چچا کا بیٹا ہے،میری چچی تو فرہاد انجم کے بچپن میں ہی فوت ہوگئی تھیں۔میرے چچا فوت ہوئے تو میرے بابا نے اسے جوانی میں گھر سے نکال کر اس کے حصے پر قبضہ کر لیا تھا اور اسکو گھر سے نکالنے میں سب سے زیادہ ہاتھ میرا تھا اور میں اپنے کئے کی سزا بھگت چکا ہوں بلکہ بھگت رہا ہوں۔وہ اس مقام تک کیسے پہنچا ۔یہ میں نہیں جانتا،ہاں! میں یہ اچھی طرح جانتا ہوں کہ یہ وہی میرے چچا کا لڑکا ہے جسے ہم نے مار کر گھر سے نکال دیا تھا۔اور پھر کبھی یہ جاننے کی کوشش بھی نہیں کی تھی کہ وہ کہاں ہے۔‘‘
‘‘شکر کریں انھوں نے آپ کو پہچانا نہیں!اگر پہچان لیتے تو آپ اتنی اچھی نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھتے اور اتنے اچھے لوگوں سے بھی ،جنہوں نے ہر موقعے پر ہمارا ساتھ دیا۔‘‘
‘‘ہاں! پہچان لیتا تو اپنی فیکٹری میں ملازمت ہی کیوں دیتا اسی وقت دھکے دے کر باہر نکال دیتا۔‘‘
‘‘معاف کیجیئے گا سر میں نے آپ کو ڈسٹرب کیا۔‘‘مینیجر ذکوان صدیقی آفس میں داخل ہوتے ہوئے بولے۔فرہاد ضیا نے اخبار سے نظریں ہٹا کر انہیں بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
‘‘ہوں بولو۔‘‘
‘‘میں ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں سر، آپ ناراض تو نہیں ہونگے۔‘‘
‘‘ہوں پوچھو۔‘‘انھوں نے اخبار ایک طرف رکھ دیا۔
‘‘ میں جانتا ہوں سر کہ آپ غریبوں کی مدد کر نے میں ہمیشہ پیش پیش رہتے ہیں۔اوروں کی مدد کا جذبہ آپ کے اندر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ھے،مگر شکیل انجم کے معاملے میں آپکی غیر معمولی دلچسپی اور بے قراری سے لگتا ہے کہ آپ کے اور اس کے درمیان کوئی خاص بات ہے۔‘‘
فرہاد ضیا نے نظر اٹھا کر ان کی طرف دیکھا
‘‘سوری سر! آپ مجھ سے کوئی بات نہیں چھپاتے، ہر بات کھل کر کرلیتے ہیں،بس اسی لیئے میں پوچھ بیٹھا، جہاں تک میرٰی معلومات ہیں، شکیل انجم سی آپکی کوئی رشتہ داری بھی نہیں ہے اور!اور سر مجھے یاد پڑتا ہے ، چار سال پہلے جب شکیل انجم ملازمت لینے آیا تھا تو آپ اسے دیکھ کر چونکے تھے اور پھر کوائف پورے نہ ہونے کے باوجود آپنے اسے ملازمت دے دی تھی۔اس دن سے آج تک آپ اسکی ضروریات کا خیال اوروں سے زیادہ رکھتے ہیں۔‘‘
فرہاد ضیا کچھ دیر تک خاموشی سے ایک طرف تکتے رہے ۔پھر کچھ دیر بعد انکے لبوں میں جنبش ہوئی۔
‘‘میں نے آج تک اس بات کا کسی سے ذکر نہیں کیا ،یہاں تک کہ اپنی بیوی سے بھی نہیں۔مگر اب میں محسوس کر رہا ہوں کہ میں یہ بات آپکو بتائے بغیر نہیں رہ سکوں گا۔دراصل شکیل میرے چچا کا بیٹا ہے ۔جانتے ہو کس چچا کا؟‘‘ اتنا کہہ کر وہ سانس لینے کے لئے رکے۔
‘‘یاد ماضی عذاب ہے یارب۔‘‘ انکے منہ سے ایک آہ کے ساتھ غیر اختیاری طور پر نکل گیا۔ انکی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں۔ کچھ دیر بعد وہ خود کو سنبھالتے ہوئے گویا ہوئے:
‘‘فرہاد میرے چچا کا بیٹا ہے ،جنہوں نے مجھے!مجھے یتیم اور مسکین ہونے کے بعد گھر سے نکال دیا تھا اور مجھے گھر سے نکالنے میں شکیل کا سب سے زیادہ ہاتھ تھا۔وہ میری موجودگی کسی طور برداشت نہیں کرتا تھا۔ادھر میں اپنے چچا سے ہر اس چیز کی فرمائش کر دیتاتھا جو فرہاد کے لئے آتی تھی۔اس بات سے تنگ آکر انہوں نے مجھے کئی بار گھر سے نکالا،مگر میں کہاں جاتا شام کو پھر گھر آجاتا تھا۔وہ مجھے طعنے دے کر اور میرے دوسرے چچا کی سفارش پر رکھ لیتے تھے۔‘‘
‘‘پھر ایک بار تو انتہا ہو گئی،انھوں نے مجھے بہت مارا اور قسم کھالی کہ اب اس گھر میں داخل نہیں ہونے دیں گے ۔ میں بھی بس اس گھر میں نہیں رہنا چاہتا تھا۔سو میں نکل گیا نا معلوم منزل کی طرف۔ ہاں بگولے میں اڑجانے والے کاغذکی طرح یا کسی کٹی ہوئی پتنگ کی طرح جس کی کوئی منزل نہیں ہوتی۔‘‘اتنا کہہ کر انہوں نے ٹھنڈی آہ بھری ۔کچھ دیر تک وہ خاموش رہے ، پھر ایک سمت میں نظریں جمائے کہنے لگے
‘‘قدرت کے کام بہت انوکھے اور عجیب ہوتے ہیں۔ ہماری نا قص عقل انھیں دیکھنے سے قاصر ہے یا یوں کہ لیجئے کہ جہاں ہماری عقل کی انتہا ہوتی ہے، وہاں سے قدرت کے کاموں کی ابتدا ہوتی ہے۔مجھے میرے رب نے اچھا ٹھکانہ بھی دیا،اعلیٰ تعلیم بھی اور بہترین کاروبار بھی۔ مختصراً بتا دیتا ہوں کہ اعلیٰ خاندان کے ایک نیک آدمی کے ہاتھ لگ گیا تھا اور اللہ کی مہربانی سے آج اس مقام پر ہوں۔‘‘ اتنا کہہ کر انہوں نے مینیجر کی طرف دیکھا جو دنیا و ما فیھا سے بے خبر ان کی داستان سننے میں محو تھا۔
‘‘تقریباََ مجھے گھر سے نکالنے کے پانچ سال بعد میرے بڑے چچا فوت ہو گئے۔‘‘
‘‘تو اسکے کچھ عرصے بعد میرے دوسرے چچا نے شکیل اور اسکی والدہ کو بالکل اسی طرح دھکے دے کر گھر سے نکال دیا۔ وہ بھی میری طرح ان کے خلاف کچھ نہ کر سکے۔ پھر انہوں نے بڑی مشکل سے کرائے پر گھر حاصل کیا۔ پھر اس دن سے ان کے گھر میں غربت نے ڈیرے ڈال دیے ۔ میں یہ سب جانتا ہوں ۔ تھوڑے عرصے بعد میں اس علاقے کا چکر لگا کر حالات معلوم کر لیتا تھا۔ بس بے چینی سی تھی اور اب جہاں تک میرا خیال ہے شکیل یہ سمجھتا ہے کہ میں نے اسے نہیں پہچانا مگر میں اسے کبھی نہیں بھول سکتا ، کیونکہ اسکے چہرے کے نقوش میرے بابا جان سے ملتے ہیں ۔ بس یہ ہے کل کہانی۔‘‘
یہاں تک کہہ کر انھوں نے مینیجر کی طرف دیکھااور بھر پور انداز میں مسکرا دیےاور ادھر مینیجر حیرت سے منہ کھولے فرہاد ضیا کو تک رہا تھا جیسے کہنا چا رہا ہو
‘‘آپ ہیں کیا چیز‘‘
( SHARE YOUR STORIES WITH US )
Jinn Or Insan(Afshan Rahman, Chicago usa)
Hum Tv Per Morning Show Dekha Jo Jinn Keh Baare Mein Hoowa Tha.Kiren Or Fahad Ne Kuch Logon Se Interwiew Kia Tha Kuch Logon Ke Phone Bhi Aae Thay.Ek Sahiba Ne Phone Kia Or Waqea Sonna Ya Keh Woh Jinn Keh Saath Rehtee Hein Jub Kafi Der Tak Khatoon Story Sonna Raee Theen Kiren Ki Der Ker Tabiat Kharaab Hogaee Or Woh Water Mangne Lageen To Fahad Ne Break Lia Or Baat Adhree Reh Gaee Sab Se Pehlee Baat Keh Jinnat Ka Zeeker Koee Chotee Baat Nahi Hay Yeh To Al Quran Mein Allah Tallah Ne Fermayya Hay Keh Hum Ne Jinn Or Insaano Ko Apni Ebadet Keh Lia Peda Kia Hay Goyya Jiin Ka Ziker Insaan Keh Saath Saath Kia Gayya Hay.Jinn Keh Naam Se Ek Der Sa Hotta Hay Kioon Keh Yeh Maqlooq Zaher Naee Hay Chupee Howee Hay .Jinnat Mein Ache Or Boore Hote Hein Jis Terha Insanon Mein Bhi Ache Boore Hein .Mene Bhi Ek Waqiaa Sonna Tha Keh Mere Tayya Keh Gher Per Bhi Jinn Rete Thay Meree Tayee Ammi Ne Mujhe Story Sonaee Thee Ek Din Woh Kitchen Mein Cooking Keraee Theen On Ko Awaz Aee Keh Mujhe Khanna Dedo Onon Ne Ktichen Se Baher Jaraee Theen To Ek Long Sa Insaan Ki Terha Aadmi Dekha Woh Der Gaeen.Phir Akser On Ko Nazer Aane Laga Ek Din Kuch Powder Sa Laker On Per Dalla.Kabhi Raat Ko Chalne Ki Awazen Atee Then.Karachi City Mein Ab Bhi Log Jiin Ke Waqae Sonate Hein .Ek Islamic Center Mein Teacher Ne Bataya Keh Aetal Kursee Perh Ker Surah Jinn Ki Pehlee 5 Ayat Perhne Se Jiin Ka Aser Jatta Hay.Canada Mein Bhi Ek Women Per Jiin Ne Qabza Kiaa Tha Newspaper Mein Waqya Ayya Thaa.Tv Shows Log Bhut Shoq Se Dekhte Hein Lehza Woh Programme Ko Compelete Kerne Ki Zarroret Hay Pehle Kiren Ko Ese Programme Ke Lia Ready Kernee Chae Thee.Wese I Like Scary Movies.Jab Bhi Gher Mein Dakhil Hoon Salaam Zaroor Karen Or Kalma Perna Chae Or Muslim Ban Jao Yeh Bhi Kehna Chae Ager Jinn Sun Rae Hein To Shaed Woh Bhi Muslim Hojae Or Logon Ko Nukhsaan Na Ponchae.Jago Pakistan Jago Ye Morning Show Bhut Acha Jaraha Hay .Khuda Kare Jiinat Ka Programmes Ko Compelete Dekhayya Jae.Taake Log Ko Faeda Ho Or Jiin Ka Der Na Rahe. Ameen.
Monday 10 July 2017
HORROR STORY SAAD FROM PAKISTAN
Ye aaj say taqreeban 13 saal pehlay ki baat hai. Jab may class 6th may parta tha. School kay door honay ki waja say may apny uncle kay ghr may rehnay laga or wo b jab meray final exam ho rhay thay.
Meray 4 cousin hain un may sab say bara jiska naam Shahid isi taraha bil tarteeb Ahsan, Shahzad & Saqib.
In may say jo Shahid bhai hain unhon nay pehlay ghar walon k sath baat ki q k wo raat ko der tak study krtay thay or koi na koi raat ko un k sath waqiya pesh aajata tha magr ghr walay uski baton pr yaqeen nai krtay thay..
Acha un may say meri sab say ziada dosti Shahzad say thi aik din raat ko ham log so rhay thay or achanak meri aankh khuli kamray m koi roshni nai thi… m nay kia dekh? K Shahzad bhai jo wo meri taraf dekh rhay hain or muskura rhay hain. Usi lamhay m nay unko kaha k kia baat hai sojao itni raat hai or aap jag rahay ho to unhon nay muje jawab nai dia.
Itnay m muje khayal aya k itnay andhera hai magr vo pr b muje dikhai day raha hai. Bahot ajeeb hai m nay itnay m usko mazaqan thaper day mara to mera haath us k chehray k ander say guzar gaya matlab usko kuch na hua. Or meri nazrain uski aankon m pari to m kia dekhta hoon k uski ankhain bilkul kaali jesay hamari ankhon m sufaidi hoti hai uski ankhoon m nai thi…
Phr m dar gaya k ye Shahzad bhai nahi ye koi or bhai hain or m nay sari raat sonay ki koshish ki magr naa so saka har taraf say wo muje drata tha. Phr m nay saray ghr walon ko jaga dia,, or abi b m nay ye likha hai or meray rongtay uray huay hain…
Is k baad m jab papers khatam kr kay ghr gaya to wohan b unhon nay mera peecha nai chora.
Ghar m wo jin tha ya pari kuch keh nai sakta wo meri ami ki shakal m ati thee. Or jab m dekhta tha to m usko ami kehta tha to ami ki awaz un k room say ati thee or jawab deti theen q beta kia hai. Or itnay m wo jo ami ki shakal m ati thee ghaeb hojati thi. Or m apna moon bistar m dhanp deta tha…mgr jab tak wo khari rehti thi to muje uski roshni dikhai deti thi…
Or aik din garmiyon ka mausam tha or ham sab log apnay ghr may bahir sehan may so rhay thay k achanaq muje nalka (pani wala hand pump) k chalnay ki awaz ai or may nay kaha ami kher to hai to ami apni charpai pr theen kehnay lagain kia hua beta may nay kaha nalka per kon hai? Ami boli koi nahi hai….halan k muje wo dikhai b dee thi…
Is taraha k kai waqiyat pesh aey or dosto yaqeen kro raat meray liye azab ban kr aati har din k baad.
Isi tarah aik din jab meri dadi ki behn hamaray ghar may aien to meray ghar walon nay ye sab un ko bataya….to unka jawab kia tha….?
Beta ye pari hai jo teri ami ki shakal m ati hai or aap say dosti krna chati hai isi waja say ye tumari ami ki shakal m ati hai. agr ab ki baar aey to usko bola ker sath bethnay ko kehna to wo ap k sath beth jaegi ager beth jai to bismillah per ker us say baat krna or usko kehna m teray sath dosti krta hoon agr tum muslim ho to….! Or agr wo javab day k haan may muslim hoon to us say Pehla Kalma sunna. Agr wo muslim hui to aapko suna daygi. Ager kafir hui to chali jaegi…..
Inhi baton k doran meri dadi ki behn yeni dadi nay kaha k wo muje umeed hai ye batain sun rahi hogi….
Or unhuno nay kaha ager wo muslim hai to beta teri baat ban jaegi…
Or aaj tak may dadi say pochta hoon mgr dadi muje javab nahi deti hain k kesay baat ban jaegi…
Or meray dosto muje lgta hai us nay sab batain sun li theen q k us k baad aaj kay din tak may nay kisi jin pari ko nai dekha or na ab darta hoon…
Ye thi jee hamari jino, or pariyon wali kahani…
Or ab may khas kr wo log jo jino or pariyon per yaqeen nahi rkhtay kehna chata hoon k bhai ye sach hai…
Bal k Quran Kareem may bi is ka zikar hai….jo Allah ki akhri kitaab hai or Aap SAW per utaari gai…
-
جہد مسلسل اور ہمت و حوصلے سے آگے بڑھنے کی لگن ہی میں انسانی زندگی کی بقاء کا راز مضمر ہے ۔ورنہ زندگی جمور کا شکار ہو کر اس ٹھہرے پانی کی ...
-
Asli Jinn (Abubakar sohail, Rawalpindi) Assalam O Alaikum To All Sab Se Pehle To Me Ye Kahon Ga K Allah Ne Is Duniya Me Har Tarah Ki Makh...