Tuesday 26 December 2017

گول گپے والی

جہد مسلسل اور ہمت و حوصلے سے آگے بڑھنے کی لگن ہی میں انسانی زندگی کی بقاء کا راز مضمر ہے ۔ورنہ زندگی جمور کا شکار ہو کر اس ٹھہرے پانی کی مانند ہو جاتی ہے۔ جو لوگوں کے لیے تعفن اور بدبو کا باعث بنتا ہے جب کہ ہمت و حوصلے سے گزاری جانے والی زندگی اس رواں پانی کی مانند ہوتی جو دوسروں کے لیے راحت اور زندگی کی نوید ہوتاہے۔ ایسی ہی جواں ہمت محنتی اور سفید پوش خاتون سلمٰی ہے جس کی پیدائش ایک سفید پوش غریب گھرانے میں ہوئی تھی۔ لیکن مجبوریوں نے اُسے سڑک پر لا کھڑا کیا اپنا اور اپنی بچیوں کا پیٹ پالنے کے لیے وہ آج سڑک پر گول گپے کی ریڑھی لگاتی ہے۔ تایا کے گھر بیاہی جانے والی سلمٰی ، جھنگ سے اپنی تین بچیوں اور شوہر کے ساتھ ، اپنا 5 مرلے کا ذاتی گھر چھوڑ کر، لاہور جیسے بڑے شہر میں رہنے پر اس لیے مجبور ہے کہ شوہر کے بڑے بھائی نے مار پیٹ کر کے زبردستی گھر پر قبضہ کرنے کی کوشش کی ۔ سلمٰی کے شوہر نے مکان کا یہ حصّہ اپنے بھائی سے خریدا تھا۔لیکن وہ اس کی رجسٹری نہ کرا سکے۔بدنیت بھائی نے مکان دوبارہ ہتھیانا چاہااور نہ دینے پر اس نے سلمٰی کے شوہر کو مار ا پیٹا۔ سلمٰی اوران کی بچیوں کو کمرے میں کئی دن تک بند رکھا ۔ آخر کار سلمٰی کے ماں باپ نے اُسے کچھ پیسے دیے کہ وہ اپنے حصّے کی طرف دیوار کھڑی کر لے ۔لیکن جیسے ہی ایک دن وہ کسی رشتہ دار سے ملنے گئے تو واپسی پہ انھیں دروازے ٹوٹے ہوئے ملے اور گھر میں موجود زیورات اور قیمتی سامان حتیٰ کہ برتن تک چوری ہو چکے تھے۔ پویس تھانوں سے مایوس ہوکر مجبوراً اُنھوں نے اپنا گھر چھوڑ دیا ۔ اور لاہور کا رخ کیا۔ بچیوں کی تعلیم بھی منقطع ہو گئی۔ سلمٰی کا شوہر مُحمد عمر اِس سے قبل دال چاول کی ریڑھی لگاتا تھا۔ لاہور آکر بھی وہ کچھ عرصہ تو کام کرتا رہا۔ لیکن پھرکام چھوڑ کر گھر بیٹھ گیا۔ حتٰی کہ گھر میں فاقوں کی نوبت آگئی۔ اورایک دن دوبارہ ریڑھی لگانے کے لیے سودا لینے کاکہہ کر گیا اور واپس نہیں آیا۔ سلمٰی نے اُسے تلاش کرنے کی بہت کوشش کی لیکن آخرہمت ہارگئی ۔ وہ کہتی ہے، ” کیا کروں اُسے ڈھونڈکر جس کے ہونے نہ ہونے کا کوئی فائدہ نہیں؟ اس وقت میرے لیے صرف یہ بات اہم ہے کہ کسی طرح محنت کر کے اپنی بچیوں کو چھت اور دو وقت کی روٹی دے سکوں۔” ابتد اء میں سلمٰی کے والدین اور بہن بھائیوں نے اس کی کافی امداد کی مگرجس صاحب حیثیت بھائی کے بل بوتے پرسلمٰی کے گھر کا چولھا جل رہا تھا ،کے انتقال کے بعد مشکلات بڑھ گئیں۔ ” اتنی مہنگائی میں کوئی کب تک کسی کا بوجھ اُٹھا سکتا ہے۔ ہر انسان کو اپنے لیے خود ہی کچھ نہ کچھ کرنا پڑتا ہے۔بس یہی سوچ کر میں نے بھی ہمت کی۔” خودار اور محنتی سلمٰی کا پہلے ایک پیزا (Pizza) بنانے والی عورت کے ہاتھوں استحصال ہوتا رہا۔ سلمٰی سے فی پیزا کمیشن طے ہونے کے باوجوداُسے وہ اُجرت نہ ملی جس کی وہ حق دار تھی۔ لیکن سلمٰی نے ہمت نہ ہاری اور اپنا کام کرنے کا سوچ لیا۔پہلے بریانی بنا کر لوگوں کے گھروں اور دُکانوں میں سپلائی شروع کی۔ وہ علیٰ البصح اُٹھ کر بریانی تیار کرتی۔۔۔۔ اور میلوں پیدل چلتی۔۔۔۔۔یہ سوچ کر کہ وہ سب کچھ اپنی بچیوں کی خاطر کر رہی ہے، اس کی ہمت بندھی رہتی۔ لیکن گذشتہ سال ڈینگی بخار سلمٰی کے صبر کا ایک اور امتحان ثابت ہوا۔ بیماری نے جسم میں نقاہت پیدا کر دی۔ اب اس میں لمبے لمبے سفر کرنے کی سکت نہ رہی تھی۔ ایک بار پھر بہن بھائیوں کے در پر دستک دی تاکہ کچھ پیسے ادھارپکڑ کر کچھ اور کام کر سکے۔ سلمٰی گول گپے بنانا جانتی تھی۔ اس لیے گول گپے کی ریڑھی کا سوچ کرایک بارپھر ہمت کر لی۔ سچ ہے کہ خدا بھی انھی کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں۔ ایک خدا ترس شخص نے سلمٰی کو اپنی فالتو ریڑھی بغیر کسی معاوضے کے استعمال کے لیے دے دی کہ جب وہ اپنی ذاتی ریڑھی خرید لے تو اُس کی ریڑھی واپس کردے۔ اب سلمٰی گول گپے بنانے کی تیاری کے لیے صبح چار بجے اُٹھتی ہے۔ اور دن کے دو اڑھائی بجے تک اپنی گول گپے کی ریڑھی سجا کر ایک نئے عزم کے ساتھ نکلتی ہے۔لیکن کمزور ہونے کی وجہ سے وہ ذیادہ دور تک نہیں جاسکتی۔ گھر کے آس پاس ہی ایک درخت کے نیچے جہاں بجلی کا کھمبا بھی ہے ریڑھی لگا بیٹھتی ہیتاکہ دِن میں چھاؤں اوررات میں روشنی ملتی رہے۔۔۔ اور اگر بارش ہو جائے تو ریڑھی پر پلاسٹک کی چادر ڈال کر خود وہیں کسی درخت یا دیوار کی اوڑھ میں بھیگتی رہتی ہے۔ ۔۔۔ “کبھی بچیوں کی وجہ سے جلدی گھرجانا پڑ جائے تو کچھ خدا ترس لوگ ہیں جو ریڑھی اپنے احاطے کھڑی کر لیتے ہیں۔ لیکن اُسی محلّے کے کچھ لوگ تنگ بھی کرتے ہیں۔کہتے ہیں کہ ہمارے گھروں میں بیٹیاں ہیں اور یہاں قسم قسم کے لوگ اکٹھے ہوتے ہیں۔ رات دیر تک اس خوف سے نیند نہیں آتی کہ کل اگر کسی نے ریڑھی نہ لگانے دی توکہاں جاؤں گی؟ میں کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتی۔ لیکن کیا میں عزت سے چار پیسے کمانے کی بھی حق دار نہیں ؟دُنیا کا عجیب دستور ہے ۔ جو عورت ہاتھ پھیلاتی ہے اُسے دھتکارتے ہیں۔ لیکن جو محنت کرتی ہے ،اُسے کام نہیں کرنے دیتے۔” پہ در پہ مشکلات اور بیماری نے سلمٰی کے جسم میں نقاہت ضرور پیدا کر دی ہے مگر اُس کے حوصلے مضبوط ہیں۔ بیٹیوں کو پڑھانے کی حیثیت نہیں ، لیکن اراد ہ ضرور رکھتی ہے۔ بڑی بیٹی آ ٹھویں سے آگے پڑھ تو نہیں سکی مگر اب سلائی کڑھائی سیکھ رہی ہے تاکہ اپنی ماں کا ہاتھ بٹا سکے ۔ سلمٰی خود بھی بہت اچھی سلائی کڑھائی کر لیتی ہے۔ لیکن ابھی وہ اتنے پیسے نہیں جو ڑ سکی کہ سلائی مشین لے سکے ۔ اُس کے گھر میں ایک کارپیٹ (carpet)کا ٹکڑا ،ایک چارپائی ، پنکھااور استعمال کے چند برتن ہیں اوروہ بھی لوگوں کے دیے ہوئے ہیں۔ ڈیڑھ سو سے ڈھائی سو روپے دیہاڑی کمانے والی سلمٰی چار ہزار ماہوار مکان کا کرایہ اور دو ہزار بجلی اور گیس کا بل بھی دیتی ہے ۔جب کہ گھر میں ایک پنکھے اور ایک بلب کے سوا کچھ نہیں ہے۔ “میری بچیاں پڑھنا چاہتی ہیں ۔ کہتی ہیں پڑھ لکھ کر جہاز میں بیٹھ کر باہر جائیں گی۔ خواہشیں تو میری بھی ہیں۔۔۔۔ دل تو میرا بھی چاہتا ہے کہ اچھے صاف ستھرے کپڑے پہن کر گھر میںآرام کروں ۔ لیکن اب مجھے اپنا نہیں اپنی بچیوں کا سوچنا ہے ۔کاش میری بیٹیاں پڑھ لکھ کر کسی لائق بن جائیں تاکہ انہیں میری طرح گلیوں میں نہ پھرنا پڑے ۔میں رات رات بھر ان کے مستقبل کا سوچتی رہتی ہوں” سلمٰی کے لفظوں کی سچائی اُس کی آنکھوں سے جھلکتی ہے۔اُس کی اپنی خواہشیں اور تمنائیں کو کہیں بہت پیچھے رہ گئی ہیں۔ اب وہ صرف اپنی بیٹیوں کے لیے جی رہی ہے۔ پر ماں کی طرح وہ بھی اپنی بیٹیوں کو خوش اور کامیاب دیکھنا چاہتی ہے۔ اور ان کے لیے ایک ایسی زندگی کی متمنی ،جہاں وہ کسی کی محتاج نہ ہوں۔!!!

Tuesday 12 December 2017

شازیا کی سوتی جاگتی زندگی

تنگ گلیوں کے تاریک مکانوں میں بسنے والے فاقہ مستوں کی ناتواں امیدوں کی ناؤ،ان کے اپنے ہی آنسووؤں میں تیرتی ،ڈوبتی روشنیوں کے شہرکا پتہ پوچھتی ہے ۔اس ڈوبتے ابھر تے سفر میں کبھی کبھی ایسے بے بسوں کوبیچ منجھدار ڈوبنا پڑتا ہے اور کبھی کبھار ناتواں جسموں کی جہدِ مسلسل آس کی ناؤ میں چھید کرتی ہوئی کنارا ڈھونڈتی ہے۔شازیہ سرور تنگ وتاریک ماحول میں ایسے جگنو کی مانند ہے جس نے اپنی اولاد کوبے علمی کے اندھیروں میں گم نہیں ہونے دیا ۔(ادارہ)شازیہ سرور کاتعلق ایسے پسماندہ خاندان سے ہے ج ہاں بچوں کی تعلیم کو اہمیت ہی نہیں دی جاتی ۔گلیوں میں کھیل کود کربڑے ہونے والے لڑکوں کووالدین کمائی کا ذریعہ سمجھتے ہیں اور بیٹیاں ان کے سروں کا ایسا بوجھ ہوتی ہیں جنہیں وہ جلد از جلدسر سے اتار پھینکنا چاہتے ہیں۔ شازیہ نے ابھی عمر کی اٹھارویں سیڑھی پر قدم دھر ا ہی تھا کہ اس کے والدین نے اس کا بوجھ ڈولی میں ڈال کر محمد سرور کے سر ڈال دیا ۔ان کے تئیں سرکاری محکمے میں نائب قاصد کی نوکری کرنے والا یہ شخص اُ سے پھولوں کی سیج پر رکھنے والا تھا ۔اندھیرے گھروں میں بسنے والے والدین کے لئے’’پکی نوکری‘‘کی سند توجیسے خوش قسمتی کی علامت تھی۔ شازیہ کہتی ہے ’’ شادی کے کئی مہینوں کے بعد مجھے اپنے شوہر کی دوسری شادی کاعلم ہواتو میرے لئے حالات سے سمجھوتہ کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا ۔ سسرال بھی ملا تو ایسا ظالم کہ میری ساس اور نندذراذرا سی بات پر مجھے مارتیں اور شوہر سے بھی پٹواتیں۔ حالانکہ شادی کے فوراً بعد ہی بہو کی صورت میں ایک بغیر معاوضے کی ملازمہ گھر میں آچکی تھی۔کھانا پکانے سے لے کر صفائی ستھرائی تک سب میری ذمہ داری تھی لیکن پیٹ بھر کر تازہ کھانا میری قسمت میں نہیں تھا۔کھانا پکوانے کے بعد میری ساس نعمت خانے میں کھانا رکھ کراسے تالا لگادیتی مجھے باسی اور بعض اوقات بُساخراب کھانا نصیب ہوتا اور جب کبھی میری ساس زیادہ غصے میں ہوتی تو کچھ بھی کھانے کو نہ ملتا اس وقت میں پیٹ بھرنے کے لیے ’’چھان بورے ‘‘کی سوکھی روٹی پانی میں بھگو کر کھالیتی اور سوچتی کہ لوگ اتنے بھی ظالم ہو سکتے ہیں؟ میرے پانچوں بچے انہی حالات میں پیدا ہوئے۔میں نے ان حالات کا ذکرکبھی اپنے والدین سے نہیں کیا کیونکہ ابھی دوبیٹیوں کا بوجھ ان کے سر پہ تھا میں میکے جا کر بیٹھ جاتی تو بہنوں کی شادیاں ہونی مشکل ہوجاتیں۔ ایک مرتبہ میں نے کھانا نہ ملنے کا شکوہ اپنے شوہر سے کیا لیکن وہاں بھی میرے لئے ہمدردی کے دو بول نہ تھے بلکہ نہ بھرنے والے ایسے زخم تھے جو آج بھی تازہ ہیں ان کا خیال تھاکہ میں ان کی ماں بہنوں پر الزام لگارہی ہوں۔اپنی مارپیٹ کا ذکرمیں نے کبھی اپنی والدہ سے نہیں کیا۔ایک دفعہ ماں نے میرے بازوپر نیل کا نشان دیکھا تو میں نے بہانہ کردیا کہ میں غسلخانے میں گر گئی تھی۔خدا جانے مجھ میں اتنی سمجھ بوجھ کہاں سے آئی کہ خاوند اور سسرال کے ظلم کی خبر میکے والوں کو نہ ہونے دی ورنہ حالات بگڑ جاتے اور پھر کبھی ٹھیک نہ ہوتے یوں ہمارے معاشرے میں عورت سسرال میں رہنے کے قابل رہتی ہے اور نہ میکے میں۔کہتے ہیں ناں اللہ اپنے بندوں کو تنہا نہیں چھوڑتاآخر اسے بھی مجھ پر رحم آگیا میرے شوہر نے مجھے اور اپنے گھر والوں کو کئی حوالوں سے آزمایا تو اسے احساس ہو گیا کہ اس کے گھر والے ظلم کرتے ہیں۔ اس کی پہلی بیوی بھی بے قصور تھی سرور نے اپنی والدہ کے کہنے پراسے طلاق دی تھی۔ احساسِ ندامت سے اس نے مجھ سے معافی مانگی اورمرتے دم تک اپنے عہد پر قائم رہا۔ شادی کے بارہ برس بعد محمد سرور کا انتقال ہوگیا ۔آج اسے فو ت ہوئے پانچ برس ہونے کو آئے ہیں زندگی کے آخری تین برس اس نے بیماری میں کاٹے۔وہ شوگر اور دل کامریض تھااور اپنے فرا ئضِ منصبی انجام دینے کے قابل نہ رہاتھاپھر بھی اس کے افسران کی ہمدردیاں اس کے ساتھ تھیں اور وہ ہر طرح سے اس کا خیال رکھتے تھے۔ محمدسرور کی بیماری کی نوعیت ہی کچھ ایسی تھی کہ ہر ماہ تین، چارہزار روپے اس کے علاج معالجے پر ہی اٹھ جاتے،پھر والدین اور بیوی بچوں کی ذمہ داریاں الگ،فاقوں سے بچنے کے لئے شازیہ نے غمِ روزگار میں گھر سے باہر قدم نکالا وہ کہتی ہے۔’’میں نے اپنی زندگی میں کبھی نوکری کے لئے گھر سے قدم نہیں نکالا تھا لیکن اب میرے بچوں کی بھوک کا مسئلہ تھاایسے میں کسی گھر میں کھاناپکانے کا کام ملا تووہ بھی کیا، فیکٹری سے سلائی اوراستری کرنے کاکام ملتا تو وہ بھی کرتی ۔میں نے اپنی ضرورتوں کے لئے کبھی کسی بہن بھائی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا اور پھرہم ایسے لوگوں کی ضرورتیں ہوتی ہی کیا ہیں دو وقت کی روٹی اورتن ڈھانپنے کو معمولی لباس اور چھوٹی موٹی بیماریوں کوتوہم لوگ کچھ سمجھتے ہی نہیں ۔مجھ ایسی کم تعلیم یافتہ عورتوں کو ایسی چھوٹی موٹی نوکریاں بھی مل جائیں تو غنیمت!!! اس لئے میں نے تہیہ کر لیا کہ اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم ضرور دلواؤں گی کیونکہ اس کے بغیر زندگی ذلتوں کے سوا کچھ نہیں۔میں محنت سے کبھی نہیں گھبرائی۔میری جدوجہد اور آزمائش کا آغاز تو شوہر کی زندگی میں ہی ہوگیا تھالیکن اس کے مرنے کے بعدتو جیسے مصیبتوں کے پہاڑہی ٹوٹ پڑے۔کم عمری،ناسمجھی،پانچ بچوں کا ساتھ اور لوگوں کی الٹی سیدھی باتیں ،دن رات رونے اورفاقوں سے میری طبیعت خراب رہنے لگی!!! سسرال والوں کی عنائت،کہ انہوں نے گھر سے نکال دیا میں اپنے والدین کے گھرکیا آئی کہ سگے بھائی بھی بوجھ سمجھنے لگے!! بس سب سے چھوٹے بھائی نے قدم قدم پر میرا ساتھ دیا اور اب بھی میرے ساتھ ہے۔لیکن اس بیچارے کے نصیب میں بھی کبھی نوکری ہے اور کبھی بے روزگاری۔ ایسے حالات میں جیسے ہی محکمے کی طرف سے میرے مرحوم شوہرکے فنڈز وغیرہ ملے ،سسرال کے ساتھ ساتھ میکے والے بھی اس رقم کو ہتھیانے کی کوششیں کرنے لگے۔پیسہ پاس ہو تو سب آگے پیچھے ہونے لگتے ہیں۔میرا ارادہ تھا کہ والدین کے ساتھ رہنے کی بجائے گروی پر الگ گھر لے لوں گی۔میں مکان کی تلاش میں تھی کہ میرے ایک قریبی عزیز نے (جو کہ میری بھابھی کا بھائی بھی ہے)مشورہ دیاکہ میں یہ رقم اس کے کاروبار میں لگا دوں اس طرح ہر مہینے مجھے منافع بھی ملتا رہے گا اور میری اصل رقم بھی محفوظ رہے گی۔ میں نے اپنے بھائی کے مشورے سے اڑھائی لاکھ روپے کی رقم اسے دے دی وہ یہ رقم لے کر کراچی چلا گیا اور آج تک روپوش ہے ۔اب میں نے ایک گھر کی بالائی کی منزل کاایک کمرہ کرایے پرلیا ہوا ہے جس کے صحن کا کوئی دروازہ نہیں!! سردیوں کے موسم میں تو جیسے تیسے گزارا ہو جاتا ہے لیکن جب گرمیاں آتی ہیں اور آسمان سے آگ برسنا شروع ہوتی ہے تو صحن میں سونے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا ۔ میں اور بچے صحن میں سوتے ہیں لیکن میں اپنی بچیوں کی حفاظت کی وجہ سے ساری رات سوتے جاگتے گزارتی ہوں کیونکہ ساتھ ہی دوسری چھت مالک مکان کی ہے درمیان میں کوئی دروازہ یا دیوار نہیں !! اس گھر کے لوگ بھی اسی چھت پر سوتے ہیں۔‘‘خودداراورکڑی آزمائشوں سے دوچارشازیہ اس وقت اپنے شوہر کی جگہ اسی محکمے میں بطور نائب قاصداسی طرح اپنی ڈیوٹی نبھا رہی ہے جس طرح مرد چپڑاسی کام کرتے ہیں ۔چائے بنانا،کھانا سرو کرنا، فائلیں ایک جگہ سے دوسری جگہ لے کر جانا اور اسی طرح کے تمام کام وہ سر جھکائے انتہائی مستعدی سے سرانجام دیتی نظر آتی ہے ۔ وہ کہتی ہے ’’ ڈیڑھ سال کی دربدری اور دھکے کھانے کے بعد مجھے یہ ملازمت ملی۔میں اللہ تعالیٰ کاشکر اداکرنے کے بعدان تمام لوگوں کی بھی مشکور ہوں جو میری ملازمت کا وسیلہ بنے لیکن جن حالات سے میں گزری ہوں اور گزر رہی ہوںیہ دکھ میرے لئے اذیت ناک ہے!! کاش میں زیادہ پڑھی لکھی ہوتی‘‘یہ کہتے ہوئے شازیہ کی آنکھوں کے آنسواور لہجے کا درد وہ کہانی بیان کرگئے جووہ زبان سے ادا نہیں کر سکتی تھی۔ شازیہ اب بالکل خالی ہاتھ ہے ۔اپنی تنخواہ،شوہر کی پنشن اوروِڈو فنڈ(Widow Fund )سب ملا کر شازیہ کے پاس بس اتنے پیسے ہوتے ہیں،کہ وہ مکان کا کرایہ،بل اور بچوں کوروکھی سوکھی کھلاسکے۔شازیہ کے دوبیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔ زردرو، اور کمزور جسموں والے بچے ماں ہی کی طرح صابروشاکر ،لیکن ذہین اور لائق ہیں وہ ہر کلاس میں اچھے نمبروں میں کامیاب ہوتے ہیں۔شازیہ کہتی ہے ۔’’میری غیر موجودگی میں بچے گھر ہی میں ہوتے ہیں جب تک میں گھر نہ آجاؤں میرا بڑا بیٹاچھوٹی بہنوں اوربھائی کو تنہا چھوڑ کر کہیں نہیں جاتا۔یہ اللہ کا خاص کرم ہے کہ میرے بچے میری طرح صبر کر نے والے اور خوددارہیں۔اگر گھر میں کھانے کو کچھ نہ ہو تووہ کبھی کسی سے نہیں مانگتے حالانکہ بالکل قریب ہی میرے والداور بھائیوں کا گھر ہے۔ میرے گھر لوٹنے تک بچے بھوکے بیٹھے رہتے ہیں پھر میں انہیں جو بھی بنا کر دے دوں وہ خاموشی سے کھالیتے ہیں۔ میں سمجھتی ہوں کہ یہ اللہ کا مجھ پر خاص کرم ہے کہ میرے بچے بہت فرمانبردار اور پڑھنے کا شوق رکھتے ہیں بس یہی میری کمائی ،میرا حوصلہ اور میری محنت ہے۔ ‘‘شازیہ کے لئے ماں کا بچھڑ جانا بہت بڑا صدمہ ہے شاید اسی لئے وہ اپنے معذور والد کی لاٹھی بننا چاہتی ہے اس کے والد ایک پرائیویٹ ادارے میں سیکیورٹی گارڈ تھے ڈاکو ؤں سے مقابلے کے دوران انہیں ٹانگ پر گولی لگ گئی شازیہ کے بھائی جانتے تھے کہ بہن کے پاس شوہر کے فنڈز میں سے بچی ہوئی رقم موجود ہے لہٰذا انہوں نے باپ کا علاج کروانے کی ذمہ داری بھی بہن سر پہ ڈال دی۔شازیہ کہتی ہے ’’میں اپنے باپ کو مرتا نہیں دیکھ سکتی تھی۔ آپریشن سے ان کی ٹانگ کی گولی تو نکل گئی لیکن عمر بھر کے لیے معذور ہوگئے ویل چیئر کے بغیرکہیں آجا نہیں سکتے۔ مجھے دکھ اس بات کا ہے کہ میرے بھائی جنہوں نے میرا خرچہ اٹھانے سے انکار کردیا تھا اب میری تنخواہ کے انتظار میں رہتے ہیں میں کبھی اپنے لیے ادھار سودا نہیں خریدتی لیکن وہ دوکانوں سے ادھار لیتے ہیں اور مجھے ان کے حساب چکانے پڑتے ہیں‘‘۔ صبح سے شام تک محکمانہ فرائض ادا کرنے کے بعدشازیہ کپڑوں کی فیکٹری سے روزانہ اجرت پر کپڑے استری کرنے کے لیے لاتی ہے ان پیسوں سے وہ اپنے اخراجات پورے کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے بھائیوں اور ایک بہن کی بھی مدد کرتی ہے ۔اس کے بھائی اکثربے روزگار رہتے ہیں اور بہن کا شوہر بھی سرکاری نوکری سے معطل ہے۔ خدا کی رضا پر راضی شازیہ نے اپنے والدین کی بہت خدمت کی اور کر بھی رہی ہے ۔شازیہ کا کہنا ہے ’’جہاں تک ہوسکتا ہے میں اپنے رشتے داروں سے بنا کر رکھتی ہوں کوئی غلط بات کہہ بھی دے تو جواب نہیں دے سکتی۔ میرا بیٹا میری اس عادت سے بہت نالاں ہے وہ کہتا ہے ’’امی مجھے بولنے دیا کریں میں آپ کی بے عزتی برداشت نہیں کر سکتا‘‘لیکن میں اسے خاموش کروا دیتی ہوں کہ سب سے لڑ جھگڑ کرکہاں جائیں گے؟ سر پہ ہاتھ رکھنے والا کوئی تو ہو!! پھر بھی میرے قریبی رشتے دار مجھے کچوکے لگانے سے باز نہیں آتے کہ میں نے اپنے یتیم بچوں کاحق مار کران کے باپ کے پیسوں سے اپنے ماں باپ کا علاج کروایا ۔ میں نے اللہ کی خوشنودی کے لئے والدین کی خدمت کی ، میں جانتی ہوں ماں باپ کی خدمت عین عبادت ہے لیکن آج تک یہ سمجھ نہیں سکی کہ آخر مجھ سے غلط کیا ہوا جس کی سزا اک جہدِ مسلسل کی طرح مجھ پر عذاب کی طرح نازل ہے۔

Friday 1 December 2017

HEART TUCHING STORY )

ایک چھوٹا سا بورڈ ریڑھی کی چھت سے لٹک رہا تھا، اس پر موٹے مارکر سے لکھا ہوا تھا، ''گھر میں کوئی نہیں ھے، میری بوڑھی ماں فالج زدہ ہے، مجھے تھوڑی تھوڑی دیر بعد انهیں کھانا اور اتنی ہی مرتبه حاجت کرانی پڑتی ہے، اگر آپ کو جلدی ھے تو اپنی مرضی سے فروٹ تول لیں اور پیسے کونے پر کر ریگزین کےگتے کے نیچے رکھ دیجیے . ساتھ ھی ریٹ بھی لکھے ھوۓ هیں اور اگر آپ کے پاس پیسے نه ھوں، تو میری طرف سے لے لینا, اجازت ہے! . وللہ خیرالرازقین! ادھر اُدھر دیکھا، پاس پڑے ترازو میں دو کلو سیب تولے، درجن کیلے لیے، شاپر میں ڈالے، پرائس لسٹ سے قیمت دیکھی، پیسے نکال کر ریڑھی کے پھٹے کے گتے والے کونے کو اٹھایا، وہاں سو پچاس دس دس کے نوٹ پڑے تھی، میں نے پیسے اسی میں رکھ کر اسے ڈھک دیا، ادھر اُدھر دیکھا کہ شاید کوئی میری طرف متوجہ ہو، اور شاپر اٹھا کر واپس فلیٹ پر آگیا. ، افطار کے بعد میں اور بھائی ادھر گئے. دیکھا اک باریش آدمی ، داڑھی آدھی کالی آدھی سفید ، ہلکے کریم کلر کرتے شلوار میں ریڑھی کو دھکا لگا کر بس جانے ہی والا تھا وه ھمیں دیکھکر مسکرایا اور بولا" صاحب ! پھل تو ختم ہوگیا نام پوچھا تو بولا خادم حسین پھر ہم سامنے ڈھابے پہ بیٹھے تھے. چائے آئی، کہنے لگا "پچھلے تین سال سے اماں بستر پر ھے، کچھ نفسیاتی سی بھی ہوگئی ہے، اور اب تو فالج بھی ہوگیا ہے، میرا کوئی بال بچہ نہیں، بیوی مر گئی ہے، صرف میں ھوں اور میری اماں. اماں کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نهیں اس لئے مجھے ھروقت اماں کا خیال رکھنا پڑتا ھے" اک دن میں نے اماں کے پاؤں دباتے ھوۓ بڑی نرمی لجالت سے کہا، "اماں! تیری تیمار داری کو تو بڑا جی کرتا ہے. پر جیب میں کچھ نھیں تو مجھے کمرے سے ہلنے نہیں دیتی، کہتی ہے تو جاتا ہے تو جی گھبراتا ہے، تو ہی بتا میں کیا کروں؟ " اب کیا غیب سے کھانا اترے گا ؟ نہ میں بنی اسرائیل کا جنا ہوں نہ تو موسیٰ کی ماں ہے، کیا کروں! یه سن کر اماں نے ہانپتے کانپتے اٹھنے کی کوشش کی, میں نے تکیہ اونچا کر کے اسکو بٹھایا ,ٹیک لگوائی، انھوں نے جھریوں والا چھره اٹھایا اپنے کمزور ہاتھوں کا پیالا بنا یا، اور نه جانے رب العالمین سے کیا بات کی، پهر بولی " تو ریڑھی وہی چھوڑ آیا کر، تیرا رزق تجھے اسی کمرے میں بیٹھ کر ملے گا" ، میں نے کہا " اماں کیا بات کرتی ھے, وہاں چھوڑ آؤں گا تو کوئی چور اچکا سب کچھ لے جاۓ گا، آجکل کون لحاظ کرتا ھے؟ بنا مالک کے کون خریدار آئے گا؟" کہنے لگی "تو فجر کو ریڑھی پھلوں سے بھر کرچھوڑ کر آجا بس، زیادہ بک بک نیئں کر، شام کو خالی لے آیا کر، اگر تیرا روپیہ گیا تو یه خالدہ ثریا الله سے پائی پائی وصول دیگی". "ڈھائی سال ہوگئے ہیں بھائی!صبح ریڑھی لگا جاتا ہوں. شام کو لے جاتا ہوں، لوگ پیسے رکھ جاتے پھل لے جاتے، دھیلا اوپر نیچے نہیں ہوتا، بلکہ کچھ تو زیادہ رکھ جاتے، اکثر تخمینہ نفع لاگت سے تین چار سو اوپر ہی جا نکلتاھے، کبھی کوئی اماں کے لیے پھول رکھ جاتا ہے، کبھی کوئی اور چیز! پرسوں ایک پڑھی لکھی بچی پلاؤ بنا کر رکھ گئی، نوٹ لکھکر رکھ گئی "اماں کے لیے"،. اک ڈاکٹر کا گزر ہوا، وہ اپنا کارڈ چھوڑ گیا. پشت پہ لکھ گیا. "انکل! اماں کی طبیعت نہ سنبھلے تو مجھے فون کرنا، میں گھر سے پک کر لوں گا" کسی حاجی صاحب کا گزر ہوا تو عجوہ کجھور کا پیکٹ چھوڑ گیا، کوئی جوڑا شاپنگ کرکے گزرا تو فروٹ لیتے ہوئے اماں کے لیے سوٹ رکھ گیا، روزانہ ایسا کچھ نہ کچھ میرے رزق کے ساتھ موجود ہوتا ہے، نہ اماں ہلنے دیتی ہے نہ اللہ رکنے دیتا ہے. اماں تو کہتی تیرا پھل بیچنے کے لئے، اللہ خود نیچے اتر آتا ہے، اور بیچ باچ جاتا ہے، بھائی! وه سوھنا رب اک تو رازق ھے، اوپر سے ریٹیلر بھی ھے، اللہ اللہ آخر میں مجھے اپنے بچوں سے کھنا ھے اگر آپ فارغ ھوں اور اپنے والدین کو کام کرتے دیکھیں تو فورأ اٹھکر انکی مدد کریں اور انهیں کھیں "امی جان! ابا جان! "لائیے میں آپکی مدد کرتا / کرتی ھوں" پهر دیکهیں دنیا و آخرت کی کامیابیاں کیسے تمھارے قدم چومتی ھیں! انشاءالله! ایک شئیر کر دیں شاید آپ کے ایک شیئر سے کسی کا بھلا ہو جاۓ

Tuesday 21 November 2017

°~~~ Love StoRy ~~~°

"aik larki aur larka aik dosrai ko bohat chahtai tai.Lakin masla yai ta kai larka ta bohat ghareeb aur larki kai gharanai walai us ko apna damaad banani ko sharam samajtai tai.Hua yai kai is larkai nai kahi dafa larki kai ghar waloon ko rista dainai kai liyai baija.Lakin unhoon sai bainarmi aur baizati sai un ko wapas paija kuch aisai alfaaz keh kai"kai ham apnai pairoon ki dhool ko sar pai nahin daltai.Aur yahan anai ki majal app ki kaisai hoyee.Dobara nazar ayee to acha nahin hoga".Kuch is tarah sai unhoon nai yai sab kuch kiya.--- Wo larki aik din usi larkai sai mil kar ayee to larki kai baap nai usai daik liya aur phir usai ghar main band kar maar feet shoroo kardi.Aur is kaam main us kai aboo kai saat us ka chacha bi ta.Is larki ko jan sai marnai ki kosish ki gayee akhir wo kamyaab ho gayee.Lakin kuch is tarah maa feet ki gayee ti"haat pair band kai saar pai hatora mara giya.Phir jab sai sai kaam nahin chala to rasi ghalai main band kai latkaya giya to rasi kul rahi ti.Phir akhir us ko ghari main rastai main hi zehar ka injection dai diya giya.Jo kai akhiri limit ti un ki kameengi ki.Jab usai wapas laya giya to wo ALLAH ko pyaari ho gayee ti" Yai aik sachi kahani hai.Aur yai taqreeban 4 saal pehlai ki baat hai.Is par ilzaam lagaya giya ta kai wo chat sai giri.Lakin police ko sab kuch us larki kai maa nai bataya kai larki kai baap aur chacha nai mil kai us kai baiti ko mara.Jinsai un par case hua lakin phir bi ajj wo kulai garaibaan ghoom rahain hain.To zulam ki had abb nahin rahi.Jo larki kai saat hua wo us ki maa behtar janti hai.Lakin saza nai kuch nahin kiya. Yai baat akhbaroon main chapi ti.Halankai yai case musharraf tak bi giya ta.Lakin bahaal kuch na ho saka.App sab ka kya kyaal hai aisai moashrai kai barain main.Kya pyaar karna ghuram hai?..Aur agar hai to us ki saza yai ti jo kahani main darj hai? Umeed hai abb ko sab kuch samaj agiya hoga..GOD BLESS U ALL WITH ME. NOTE:-sorry if my words hurt anyone.

Monday 20 November 2017

AIK BADSHAH THA

ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﯽ ﻋﺎﺩﺕ ﺗﮭﯽ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﯽ ﻋﺎﺩﺕ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺑﮭﯿﺲ ﺑﺪﻝ ﮐﺮ ﻋﻮﺍﻡ ﮐﯽ ﺧﺒﺮ ﮔﯿﺮﯼ ﮐﺮﺗﺎ ﺗﮭﺎ . ﺍﮎ ﺩﻥ ﺍﭘﻨﮯ ﻭﺯﯾﺮ ﮐﯿﺴﺎﺗﮫ ﮔﺰﺍﺭﺗﮯ ﮨﻮﮰ ﺷﮩﺮ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﮐﻨﺎﺭﮮ ﭘﺮ ﭘﮩﻨﭼﺎ ﺗﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺍﯾﮏ ﺁﺩﻣﯽ ﮔﺮﺍ ﭘﮍﺍ ﮨﮯ . ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﮨﻼ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﻭﮦ ﻣﺮﭼﮑﺎ ﺗﮭﺎ . ﻟﻮﮒ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺳﮯ ﮔﺰﺭ ﮐﺮ ﺟﺎﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮯ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﺁﻭﺍﺯ ﺩﯼ ﻟﯿﮑﻦ ﻟﻮﮒ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﻮ ﭘﮩﭽﺎﻥ ﻧﮧ ﺳﮑﮯ ﺍﻭﺭ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﯿﺎ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ؟ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ : ﺍﺳﮑﻮ ﮐﺴﯽ ﻧﮯ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﭨﮭﺎﯾﺎ؟ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ : ﯾﮧ ﺑﮩﺖ ﺑُﺮﺍ ﺍﻭﺭ ﮔﻨﺎﮦ ﮔﺎﺭ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮨﮯ . ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ : ﮐﯿﺎ ﯾﮧ ﺍﻣﺖ ﺭﺳﻮﻝؑ ﻧﮩﯿﮟ؟ ﯾﮧ ﮐﮩﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﺷﺨﺺ ﮐﯽ ﻻﺵ ﺍﭨﮭﺎﮐﺮ ﺍﺳﮑﮯ ﮔﮭﺮ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﺩﯼ _ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﯿﻮﯼ ﻧﮯ ﺧﺎﻭﻧﺪ ﮐﯽ ﻻﺵ ﺩﯾﮑﮭﯽ ﺗﻮ ﺭﻭﻧﮯ ﻟﮕﯽ۔ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮑﺎ ﻭﺯﯾﺮ ﻭﮨﯿﮟ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﺎ ﺭﻭﻧﺎ ﺳﻨﺘﮯ ﺭﮨﮯ . ﻋﻮﺭﺕ ﮐﮩﮧ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ، ﻣﯿﮟ ﮔﻮﺍﮨﯽ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﻮﮞ، ﻣﯿﺮﺍ ﺧﺎﻭﻧﺪ ﺍﻟﻠّﻪ ﮐﺎ ﻭﻟﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﯿﮏ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮨﮯ۔ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﭘﺮ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﻮ ﺑﮍﺍ ﻣﺘﻌﺠﺐ ﮨﻮﺍ، ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ ﯾﮧ ﮐﯿﺴﮯ ﮨﻮﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ﻟﻮﮒ ﺗﻮ ﺍﺱﮐﯽ ﺑﺮﺍﺋﯽ ﮐﺮﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺗﻮ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮑﯽ ﻣﯿﺖ ﮐﻮ ﮨﺎﺗﮫ ﻟﮕﺎﻧﮯ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺗﯿﺎﺭ ﻧﮧ ﺗﮭﮯ۔ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﯿﻮﯼ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ : ﻣﺠﮭﮯ ﺑﮭﯽ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﺳﮯ ﯾﮩﯽ ﺗﻮﻗﻊ ﺗﮭﯽ۔ ﺩﺭﺍﺻﻞ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﺍ ﺧﺎﻭﻧﺪ ﮨﺮ ﺭﻭﺯ ﺷﺮﺍﺏ ﺧﺎﻧﮯ ﺟﺎﮐﺮ ﺷﺮﺍﺏ ﺧﺮﯾﺪﺗﺎ ﺍﻭﺭ ﮔﮭﺮ ﻻ ﮐﺮ ﮔﮍﮬﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺎ ﺩﯾﺘﺎ، ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺘﺎ ﮐﮧ ﭼﻠﻮ ﮐﭽﮫ ﺗﻮ ﮔﻨﺎﮨﻮﮞ ﮐﺎ ﺑﻮﺟﮫ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﺳﮯ ﮨﻠﮑﺎ ﮨﻮ۔ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﺑُﺮﯼ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺟﺎﺗﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮑﻮ ﺍﯾﮏ ﺭﺍﺕ ﮐﯽ ﺍﺟﺮﺕ ﺩﮮ ﺩﯾﺘﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺘﺎ ﮐﮧ ﺍﭘﻨﺎ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﺑﻨﺪ ﮐﺮﻟﮯ، ﮐﻮﺋﯽ ﺗﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﻧﮧ ﺁﺋﮯ . ﮔﮭﺮ ﺁﮐﺮ ﮐﮩﺘﺎ، ﺍﻟﺤﻤﺪ ﺍﻟﻠّﻪ ! ﺁﺝ ﺍﺱ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﺎ ﺍﻭﺭ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﮔﻨﺎﮨﻮﮞ ﮐﺎ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﭽﮫ ﺑﻮﺟﮫ ﮨﻠﮑﺎ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﮨﮯ۔ ﻟﻮﮒ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺍﻥ ﺟﮕﮩﻮﮞ ﭘﺮ ﺁﺗﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﻣﯿﮟ ﺧﺎﻭﻧﺪ ﺳﮯ ﮐﮩﺘﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﯾﺎﺩ ﺭﮐﮫﻭ ! ﺟﺲ ﺩﻥ ﺗﻢ ﻣﺮﮔﺌﮯ ﻟﻮﮒ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﻧﮧ ﻏﺴﻞ ﺩﯾﻨﮕﮯ، ﻧﮧ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﻧﻤﺎﺯ ﺟﻨﺎﺯﮦ ﭘﮍﮬﺎﺋﻨﮕﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺩﻓﻨﺎﺋﻨﮕﮯ۔ ﻭﮦ ﻣﺴﮑﺮﺍﺗﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﮐﮩﺘﮯ ﮐﮧ ﮔﮭﺒﺮﺍﻭ ﻧﮩﯿﮟ، ﺗﻢ ﺩﯾﮑﮭﻮﮔﯽ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﺍ ﺟﻨﺎﺯﮦ ﻭﻗﺖ ﮐﺎ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ، ﻋﻠﻤﺎﺀ ﺍﻭﺭ ﺍﻭﻟﯿﺎ ﭘﮍﮬﯿﮟ ﮔﮯ . ﯾﮧ ﺳﻦ ﮐﺮ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺭﻭ ﭘﮍﺍ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ، ﻣﯿﮟ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮨﻮﮞ، ﮐﻞ ﮨﻢ ﺍﺱ ﮐﻮ ﻏﺴﻞ ﺩﯾﮟ ﮔﮯ، ﮨﻢ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻧﻤﺎﺯِ ﺟﻨﺎﺯﮦ ﺑﮭﯽ ﭘﮍﮬﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺗﺪﻓﯿﻦ ﺑﮭﯽ ﮨﻢ ﮐﺮﻭﺍﺋﯿﮟ ﮔﮯ۔ ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺟﻨﺎﺯﮦ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻋﻠﻤﺎﺀ ﺍﻭﻟﯿﺎﺀ ﺍﻭﺭ ﮐﺜﯿﺮ ﻋﻮﺍﻡ ﻧﮯ ﭘﮍﮬﺎ . ﺁﺝ ﮨﻢ ﺑﻈﺎﮨﺮ ﮐﭽﮫ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﯾﺎ ﻣﺤﺾ ﺩﻭﺳﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﮐﭽﮫ ﺳُﻦ ﮐﺮ ﺍﮨﻢ ﻓﯿﺼﻠﮯ ﮐﺮ ﺑﯿﭩﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﮔﺮ ﮨﻢ ﺩﻭﺳﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﺩﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﮭﯿﺪ ﺟﺎﻥ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺗﻮ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺯﺑﺎﻧﯿﮟ ﮔﻮﻧﮕﯽ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﯿﮟ۔ ﺧﺪﺍﺭﺍ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﻏﻠﻂ ﺳﻤﺠﮭﻨﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺩﯾﮑﮫ ﻟﯿﺎﮐﺮﯾﮟ ﮐﮧ ﮐﯿﺎ ﻭﮦ ﺍﯾﺴﺎ ﮨﮯ ﺑﮭﯽ ﮐﮧ ﻧﮩﯿﮟ ______

Sunday 19 November 2017

ZINDAGE MEN KHOSHIYAN

ایک آدمی کی شادی اس لڑکی سے ہوئی جسے وہ پسند کرتا تھا- یہ ایک بہت بڑا فنکشن تھا- اس کے تمام دوست احباب اس کی خوشی میں شرکت کرنے آئے تھے- یہ دن ان سب کے لئے بھی ایک یادگار دن تھا- وہ لڑکی لال جوڑے میں ملبوس بہت ہی خوبصورت لگ رہی تھی- لڑکا بھی اپنی کالی شیروانی میں بہت دلکش لگ رہا تھا- وہ دونوں ساتھ میں بہت اچھے لگ رہے تھے- ہر کوئی کہہ سکتا تھا کہ ان کا پیار ایک دوسرے کے لئے بہت سچا تھا- کچھ مہینے بعد وہ لڑکی اپنے شوہر کے پاس آئی اور اس سے کہنے لگی کہ میں نے ایک میگزین میں پڑھا ہے کہ کس طرح اپنی شادی کو مضبوط بنایا جاسکتا ہے- اسکے لئے ہمیں یہ کرنا ہوگا کہ ہم دونوں اپنی اپنی ایک لسٹ تیار کریں گے ،جس میں ہم ایک دوسرے کی وہ تمام باتیں لکھیں گے جو ہمیں ایک دوسرے میں بری لگتی ہیں- اور پھر ہم اس پر بات کریں گے کہ کس طرح ہم اسے حل کرسکتے ہیں اور اپنی زندگی ایک ساتھ خوشی خوشی گزار سکتے ہیں- اسکا شوہر راضی ہوگیا- اس لڑکی نے کہا کہ اب ہم دونوں الگ الگ کمروں میں جائیں گے اور ان باتوں کے بارے میں سوچیں گے جو ہمیں خفا کرتی ہیں- انھوں نے اس بارے میں پورا دن سوچا اور وہ تمام باتیں جو انھیں ناراض کرتی تھیں لکھتے گئے- اگلے دن صبح ناشتے کی میز پر انھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی اپنی لسٹ پڑھیں گے- اسکی بیوی نے کہا کہ پہلے میں شروع کروں گی- اس نے اپنی لسٹ نکالی اس میں بہت ساری چیزیں تھیں- اس نے تین صفحات پر وہ تمام عادتیں لکھ دی تھیں جو اسے اپنے شوہر کی بری لگتی تھیں- جیسے ہی اس نے چھوٹی چھوٹی شکایتوں کی وہ لسٹ پڑھنا شروع کی اس نے دیکھا کہ اس کے شوہر کی آنکھوں میں آنسو آنے لگے- اس نے اپنے شوہر سے پوچھا کہ کیا ہوا ہے ؟ تو اس پر اس کے شوہر نے جواب دیا کہ کچھ نہیں، اور اس سے کہا کہ وہ اپنی لسٹ پڑھتی رہے- وہ لڑکی پڑھتی گئی جب تک کہ اس نے وہ تینوں صفحات اپنے شوہر کو نہ سنا دئیے- اس نے اپنی لسٹ میز پر رکھی اور اپنے ہاتھ باندھ کر بیٹھ گئی-اس کے بعد اس نے خوش ہو کر اپنے شوہر سے کہا کہ وہ اپنی لسٹ پڑھے تاکہ پھر وہ لوگ ان دونوں لسٹوں میں موجود باتوں پر غور کریں اور سوچیں کہ ان مسئلوں کو کیسے حل کیا جا سکتا ہے؟ اس کے شوہر نے بہت نرمی سے کہا کہ میری لسٹ میں کچھ بھی نہیں لکھا ہے- میں یہ سمجھتا ہوں کہ تم جیسی ہو بہت اچھی ہو اور میرے لئے بالکل مکمل ہو- میں نہیں چاہتا کہ تم میرے لئے کچھ بھی بدلو- تم بہت خوبصورت اور خوب سیرت ہو- میں کبھی تمہیں بدلنا نہیں چاہوں گا اور نہ ہی ایسی کوئی کوشش کروں گا- وہ لڑکی اپنے شوہر کی پر خلوص محبت، اس کے پیار کی گہرائی اور اپنے لئے اس کی سوچ دیکھ کر بہت متاثر ہوئی- اس کی آنکھیں جھک گئیں اور وہ رو پڑی- زندگی میں ایسے بہت سے مواقع آتے ہیں جب ہم پریشان اور خفا ہو جاتے ہیں- ہمیں ان کی طرف نہیں دیکھنا چاہئے بلکہ اس دنیا اور اپنے رشتوں کی خوبصورتی کو محسوس کرنا چاہئے- ہم خوش رہ سکتے ہیں اگر ہم اچھی چیزوں کی تعریف کریں اور ایک دوسرے کی غلطیوں کو بھلا دیں- اس دنیا میں کوئی بھی مکمل نہیں ہے ،لیکن ہم ایک دوسرے کو مکمل دیکھ سکتے ہیں اگر ہم ایک دوسرے کی غلطیوں کو نظرانداز کرنا سیکھ جائیں- ایک اچھے رشتے کے لئے ضروری ہے کہ آپ ایک دوسرے کو سمجھیں اور ایک دوسرے کی مدد کریں- اسطرح آپ اپنی زندگی میں خوشیاں بھر سکتے ہیں-

Thursday 16 November 2017

~ LOVE STORY ~

Assalam u AlaiKum Ye Mera Pehla thread hai is forum main to agar koi ghalti ho to zaroor maaf karna.... My Name Is Sahil Khan,, Stydying In BSc.... mein ap logon se apni love story share karna chahta hoon.. so plz khafa mat hona... I don't Know K is ki permission hai k nahin lekin I want to share it.... So Bachpan se mujhe pyaar ka boht shoq tha,, when I was in Dubai... Yahaan Tak k second standard mein hi Mujhe ek Ladki Jis ka naam Fareeha tha bht achi lagti thi,, Us ki adaayein Us ka naaz aur us Ka NaKhra Mujhe bht acha lagta tha... wo bht khoobsurat thi... Mein us ko bht chahne laga tha lkn naadani mein.. us waqt shayad mujhe pyaar ka mafhoum hi maalum na tha.. lkn mere pyaar ki ghanti tab baji jab Fareeha ne Second standard mein hi school chor diya tha... aur mere dil ko koi khaas thes nahin pohunchi bcoz mujhe kuch khaas pyaar ka matlab nahin pata tha... phir Jab when i was in third standard I met an another girl named Maryam.. Maryam koi khaas khoobsurat to nahin thi lkn Beherhaal dil ki bht achi thi... aur mera bht khyal karti thi,, lekin Phr wohi hua jo nahin hona chaahiye tha,, she changed her school aur mujhe ilm na tha k wo konse school mein shift ho gayi thi,, aur agar pata hota to bhi mein kounsa pafaarh torh deta.. Isi tarah mere dil mein MuKhtalif ldkiyaan aati gayein,, LKn Judaai ko Pas e Manzar RaKte hue... Baqol-e-Faraz Deewar Kya giri mere Kachey MaKaan ki Logon ne Ghar K Sehen Ko Rasta Bana Liya... Pas Zindagi Guzarti Gayi aur Shaamon pe Shaamein aati Gayein,,, Na Subh DeKhi Na Saweera DeKha Hum Ne To Har ru Andhera DeKha Mat Puch AnKhon se Udaasi Ka Sabab Is Har Sheh Me Chehra Tera DeKha... Twist: Phir meri kahaani mein Ek Twist aaya.... A Very beautiful girl with beautiful brown eyes entered my life... UsKa Naam Ayesha Tha.. Wo BilKul Pari Numa Thi... Mere Saare Khwb black n White Hote Thai aur un Black n White Khawabon Mein Sirf Wohi Colourful TV Numa Aati Thi aur Mere Khawabon Ko Chaar Chaand Laga Deti Thi... LKN Haaye Re Phooti Kismat Mere Waaldain Ke Haalaat Itne Kharaab ho gaye K Next standard Majboorun Humare Sab Ghar Wale Pakistan Aa Gaye.. Mere Abu Wahein Par Thai.. Baqol-e-Iqbal Zarurat Torh Deti Hai Ghuroor o Beniyaazi Ko, Na Hoti Koi Majbouri To Har Banda Khuda Hota... Pas Phr Mere Khwaab,,, Khawab hi reh Gaye... aur Mein Aksar Usey Sochta rehta,, aur Kuch Na Kuch Shaayeri kar Leta,, Ya Phr Kaaghzon par Lakeerin Maar Deta.. Dard Phr Bhi Kam Nahin Hota Tha.. Tehreeron Mein Kahan Mit'te Hain Dilon K Dard, Bas Behlaa Rahe Hain Khud Ko Zara Kaaghzon K Saath... Phr aahista aahista Jaise DhanaK Baarish K Baad aasmaan Se Gayab Ho Jaati Hai,, Aise Hi UsKi Yaadein Mere Dil Se Mit'ti ja rahi Theen... Pas Isi Dour Mein Meri mulaqat meri Khaala Ki Beti Kainaat Se Hui,,, Mein Jahaan Jaata Wo mere Peeche Peeche Aa jaati,, Mujh Ko Har Baar wo Ghoora Karti,, Mujhe bht ghussa aata,, Chanaancha isi Ghusse Ki Wajeh Se Aur Taake wo mera Peecha Na Kare Mein Kuch Din K Lye Peshawar Se Islamabad chala gaya,, wahaan meri phupho ka ghar tha Chananch Me Kuch Din Wahein Rehne Ki soch se chala gaya. aur mujhe is baat ki be had khushi thi k mein ne kuch din k lye us se door houn ga... LKn Wahan bhi meri waat laga daali meri cousin ne Jab Usne Kaha K Meri ammi ne mere liye Kainaat Ko Chuna Hai. Mere Pairon taley se zameen phisal gayi... aur mein ultey paaun apne ghar Peshawar aa Gaya. aur apni ammi se bht jhagra Kiya k Mere baare mein apne aisa kyun bola.. to jawab mein ammi ne kaha k wo to aise hi mazaaq tha mera aisa kuch iraada nahin hai.. chanaancha mujhe Kuch sukoon mila... Kainaat phr bhi mere peeche hi pari rehti yhaan tak k mein ne Usey bht baar maara bhi.. lkn wo Mujh ko shaayad bht pasand karne lagi thi.. Pakistan mein mera ek naya dost bana tha Jis se Mein Har Baat share karta tha,, chanaancha mein us se iske baare mein bhi zaroor kehta,, Name: Afan.. Usne Ek din mujhe Pyaar Ka Sahi Matlab bataya aur kaha k Sacha pyaar wo nahin jise tum chaaho,, sacha pyaar to wo hai jo tumhien chaahe... bas isi us mein din guzartey gaye aur mein apne dost ki baat par bht dheyaan dene laga... aur Isi chaKar mein mujhe bhi Kainaat achi lagne Lagi... mein bhi usey bht pasand karne laga tha... ab bhi jab wo aati to mere paas aake baith jaati,, us waqt mein ninth standard mein tha... hum dono aksar saath mein ludo kheltey,, aur ek doosrey se bht pyaar ki baatein karte... Isi Us mein hamaara pyaar bht gehra ho gaya tha... Mera Ek bhai Jis Ka naam Wasif tha,,, Ek din mujhe pata chala k wo Kainaat ki bari behen Noor Ko pasand karta hai.. Chanaanch mein ne ghar mein kisi ko is baat ka ilm na hone diya,, sochta tha k shayad abhi bht time hai,, Us waqt mera bhai 1st year mein tha.. 1st year mein hi kahein na kahein se meri ammi ko pata chal gaye k My brother is in love... Meri ammi ne use samjhaane ki koshish ki keh abhi bht time hai abhi college pe dehaan do aur khaala k ghar mat jaaya karo,, lkn us ka pyaar ab junoon ban gaya tha aur wo phr bhi khaala k ghar aata jaata rehta,,, usse bht rokney ki koshish ki lekin nahin maana,,, meri ammi ne khaala se kaha k tum aisa karo k tum hi na chora karo,, lkn khaala ne bhi na suna aur isi tarah ladaaiyan bht barh gayein... yahaan tak k mera bhai Ghar me nahin aata tha... LKn In sab se door Chupke Chupke do dilon ka pyaar zinda tha... aur wo bht chupke se ek doosrey si mila karte thai... Ladaaiyan bht zyaada honey ki wajeh se mein aur Kainat nani k ghar mein mila karte.. isi tarah hamaara pyaar mazeed barhta gya.. ek doosrey ko jhoota paani pilaana hum donon ka shewa ban gaya tha... Ek din Usne apne chotey chotey haathon mein mujhe choti si anghuti dikhaai,, jise dekh kar mujh se raha na gaya aur mein ne uske pyaare se haathon ko choom liya.. jis se usKe chehrey mein bhi bht musarrat dekhi... Is haath choomney k badley us ne mujhe 3 din baad naya gift diya jis se mein hairaan reh gaya.. Usne Mjhe Chooma Gaalon par... Aur mujhse Khushi se raha na gaya.. aur main naani k ghar se baahar chala gaya... mein bht khush tha,,, aur isi tarah Kainat aur Sahil Ka pyaar bht mazboot hota gaya. 14th February (Valentine day) 2009 se 5 din pehle naani ki baitak mein usne mujhe kaha k aankhein bandh karo,, Jaise hi mein ne aankhein bandh kein to naani aa gayein,, jise dekh kr wo dar gayi,, aur apne ghar ka mobile number mujhe de diya...mein nahin samjha k uska kya matlab tha... isi tarah jab bhi usey moqa milta wo mujhe msg karti aur is tarah msgs me baat hoti rehti... 14th February 2009: Hamaari Mulaaqat phr wahein hui jahaan kuch baatein adhoori reh gayi theen,, usne phr mujh se kaha k jaldi aankhein bandh karo,, aur jaise hi mein ne ankhein bandh kein usne pehli baar mujhe honton pe KISS Kiya,,, Jise phoola na samaaya aur mein ne bhi use kaha k ab apna valentine gift lona,, usne hairaani se poocha kya?? mein ne kaha aankhein bandh karo,, aur dheere se use KISS kiya... wo bhi bht Khush hui... Phir AKsar Msgs me baat hoti gayi,,, Wo mujh se kehti thi k Hamaare Msgs kisi ko parhaya mat karo,, warna aur ladaaiyaan hongein,, mein bhi usey yehi kehta rehta.. mein ne usey kaha ke apne ghar waalon ko bhi mat bataana,, chanaancha usne Meri baat maani. Log in Sign up Forums > ... > Sachi Kahaniyan > Real Love Story,,, For Real Lovers.... 12Next > Sahil_007 Sahil_007 My Love Story (EK adhoori Kahaani) Hello and Assalam u AlaiKum Ye Mera Pehla thread hai is forum main to agar koi ghalti ho to zaroor maaf karna.... My Name Is Sahil Khan,, Stydying In BSc.... mein ap logon se apni love story share karna chahta hoon.. so plz khafa mat hona... I don't Know K is ki permission hai k nahin lekin I want to share it.... So Bachpan se mujhe pyaar ka boht shoq tha,, when I was in Dubai... Yahaan Tak k second standard mein hi Mujhe ek Ladki Jis ka naam Fareeha tha bht achi lagti thi,, Us ki adaayein Us ka naaz aur us Ka NaKhra Mujhe bht acha lagta tha... wo bht khoobsurat thi... Mein us ko bht chahne laga tha lkn naadani mein.. us waqt shayad mujhe pyaar ka mafhoum hi maalum na tha.. lkn mere pyaar ki ghanti tab baji jab Fareeha ne Second standard mein hi school chor diya tha... aur mere dil ko koi khaas thes nahin pohunchi bcoz mujhe kuch khaas pyaar ka matlab nahin pata tha... phir Jab when i was in third standard I met an another girl named Maryam.. Maryam koi khaas khoobsurat to nahin thi lkn Beherhaal dil ki bht achi thi... aur mera bht khyal karti thi,, lekin Phr wohi hua jo nahin hona chaahiye tha,, she changed her school aur mujhe ilm na tha k wo konse school mein shift ho gayi thi,, aur agar pata hota to bhi mein kounsa pafaarh torh deta.. Isi tarah mere dil mein MuKhtalif ldkiyaan aati gayein,, LKn Judaai ko Pas e Manzar RaKte hue... Baqol-e-Faraz Deewar Kya giri mere Kachey MaKaan ki Logon ne Ghar K Sehen Ko Rasta Bana Liya... Pas Zindagi Guzarti Gayi aur Shaamon pe Shaamein aati Gayein,,, Na Subh DeKhi Na Saweera DeKha Hum Ne To Har ru Andhera DeKha Mat Puch AnKhon se Udaasi Ka Sabab Is Har Sheh Me Chehra Tera DeKha... Twist: Phir meri kahaani mein Ek Twist aaya.... A Very beautiful girl with beautiful brown eyes entered my life... UsKa Naam Ayesha Tha.. Wo BilKul Pari Numa Thi... Mere Saare Khwb black n White Hote Thai aur un Black n White Khawabon Mein Sirf Wohi Colourful TV Numa Aati Thi aur Mere Khawabon Ko Chaar Chaand Laga Deti Thi... LKN Haaye Re Phooti Kismat Mere Waaldain Ke Haalaat Itne Kharaab ho gaye K Next standard Majboorun Humare Sab Ghar Wale Pakistan Aa Gaye.. Mere Abu Wahein Par Thai.. Baqol-e-Iqbal Zarurat Torh Deti Hai Ghuroor o Beniyaazi Ko, Na Hoti Koi Majbouri To Har Banda Khuda Hota... Pas Phr Mere Khwaab,,, Khawab hi reh Gaye... aur Mein Aksar Usey Sochta rehta,, aur Kuch Na Kuch Shaayeri kar Leta,, Ya Phr Kaaghzon par Lakeerin Maar Deta.. Dard Phr Bhi Kam Nahin Hota Tha.. Tehreeron Mein Kahan Mit'te Hain Dilon K Dard, Bas Behlaa Rahe Hain Khud Ko Zara Kaaghzon K Saath... Phr aahista aahista Jaise DhanaK Baarish K Baad aasmaan Se Gayab Ho Jaati Hai,, Aise Hi UsKi Yaadein Mere Dil Se Mit'ti ja rahi Theen... Pas Isi Dour Mein Meri mulaqat meri Khaala Ki Beti Kainaat Se Hui,,, Mein Jahaan Jaata Wo mere Peeche Peeche Aa jaati,, Mujh Ko Har Baar wo Ghoora Karti,, Mujhe bht ghussa aata,, Chanaancha isi Ghusse Ki Wajeh Se Aur Taake wo mera Peecha Na Kare Mein Kuch Din K Lye Peshawar Se Islamabad chala gaya,, wahaan meri phupho ka ghar tha Chananch Me Kuch Din Wahein Rehne Ki soch se chala gaya. aur mujhe is baat ki be had khushi thi k mein ne kuch din k lye us se door houn ga... LKn Wahan bhi meri waat laga daali meri cousin ne Jab Usne Kaha K Meri ammi ne mere liye Kainaat Ko Chuna Hai. Mere Pairon taley se zameen phisal gayi... aur mein ultey paaun apne ghar Peshawar aa Gaya. aur apni ammi se bht jhagra Kiya k Mere baare mein apne aisa kyun bola.. to jawab mein ammi ne kaha k wo to aise hi mazaaq tha mera aisa kuch iraada nahin hai.. chanaancha mujhe Kuch sukoon mila... Kainaat phr bhi mere peeche hi pari rehti yhaan tak k mein ne Usey bht baar maara bhi.. lkn wo Mujh ko shaayad bht pasand karne lagi thi.. Pakistan mein mera ek naya dost bana tha Jis se Mein Har Baat share karta tha,, chanaancha mein us se iske baare mein bhi zaroor kehta,, Name: Afan.. Usne Ek din mujhe Pyaar Ka Sahi Matlab bataya aur kaha k Sacha pyaar wo nahin jise tum chaaho,, sacha pyaar to wo hai jo tumhien chaahe... bas isi us mein din guzartey gaye aur mein apne dost ki baat par bht dheyaan dene laga... aur Isi chaKar mein mujhe bhi Kainaat achi lagne Lagi... mein bhi usey bht pasand karne laga tha... ab bhi jab wo aati to mere paas aake baith jaati,, us waqt mein ninth standard mein tha... hum dono aksar saath mein ludo kheltey,, aur ek doosrey se bht pyaar ki baatein karte... Isi Us mein hamaara pyaar bht gehra ho gaya tha... Mera Ek bhai Jis Ka naam Wasif tha,,, Ek din mujhe pata chala k wo Kainaat ki bari behen Noor Ko pasand karta hai.. Chanaanch mein ne ghar mein kisi ko is baat ka ilm na hone diya,, sochta tha k shayad abhi bht time hai,, Us waqt mera bhai 1st year mein tha.. 1st year mein hi kahein na kahein se meri ammi ko pata chal gaye k My brother is in love... Meri ammi ne use samjhaane ki koshish ki keh abhi bht time hai abhi college pe dehaan do aur khaala k ghar mat jaaya karo,, lkn us ka pyaar ab junoon ban gaya tha aur wo phr bhi khaala k ghar aata jaata rehta,,, usse bht rokney ki koshish ki lekin nahin maana,,, meri ammi ne khaala se kaha k tum aisa karo k tum hi na chora karo,, lkn khaala ne bhi na suna aur isi tarah ladaaiyan bht barh gayein... yahaan tak k mera bhai Ghar me nahin aata tha... LKn In sab se door Chupke Chupke do dilon ka pyaar zinda tha... aur wo bht chupke se ek doosrey si mila karte thai... Ladaaiyan bht zyaada honey ki wajeh se mein aur Kainat nani k ghar mein mila karte.. isi tarah hamaara pyaar mazeed barhta gya.. ek doosrey ko jhoota paani pilaana hum donon ka shewa ban gaya tha... Ek din Usne apne chotey chotey haathon mein mujhe choti si anghuti dikhaai,, jise dekh kar mujh se raha na gaya aur mein ne uske pyaare se haathon ko choom liya.. jis se usKe chehrey mein bhi bht musarrat dekhi... Is haath choomney k badley us ne mujhe 3 din baad naya gift diya jis se mein hairaan reh gaya.. Usne Mjhe Chooma Gaalon par... Aur mujhse Khushi se raha na gaya.. aur main naani k ghar se baahar chala gaya... mein bht khush tha,,, aur isi tarah Kainat aur Sahil Ka pyaar bht mazboot hota gaya. 14th February (Valentine day) 2009 se 5 din pehle naani ki baitak mein usne mujhe kaha k aankhein bandh karo,, Jaise hi mein ne aankhein bandh kein to naani aa gayein,, jise dekh kr wo dar gayi,, aur apne ghar ka mobile number mujhe de diya...mein nahin samjha k uska kya matlab tha... isi tarah jab bhi usey moqa milta wo mujhe msg karti aur is tarah msgs me baat hoti rehti... 14th February 2009: Hamaari Mulaaqat phr wahein hui jahaan kuch baatein adhoori reh gayi theen,, usne phr mujh se kaha k jaldi aankhein bandh karo,, aur jaise hi mein ne ankhein bandh kein usne pehli baar mujhe honton pe KISS Kiya,,, Jise phoola na samaaya aur mein ne bhi use kaha k ab apna valentine gift lona,, usne hairaani se poocha kya?? mein ne kaha aankhein bandh karo,, aur dheere se use KISS kiya... wo bhi bht Khush hui... Phir AKsar Msgs me baat hoti gayi,,, Wo mujh se kehti thi k Hamaare Msgs kisi ko parhaya mat karo,, warna aur ladaaiyaan hongein,, mein bhi usey yehi kehta rehta.. mein ne usey kaha ke apne ghar waalon ko bhi mat bataana,, chanaancha usne Meri baat maani... Ek din Kainat SaKhat beemar ho gayi,, jis ki wajeh se mein use chupkey jab uske ghar koi nahin hota us se milne chala jaata,, wahaan sirf us ka chota bhai jo k naa samjh tha hota aur mein aur wo phr se ek doosrey ko dekhte rehte... bht din hue jab mjhe uske ghar jaane ka moqa na mila,, aur Allah K Fazl se wo sehet yaab ho Gayi,, to wo phr nani k ghar aayi,, aur usko sehetyaab dekh kar mein ne Musarat ka izhar kiya,, aur isi khushi mein me ne use 100 rupey ka note diya aur use kaha k apne liye kuch le jaana,, aur usne wo note apne paas sambhaal k Us par "S" LiKh diya... Elder brother: Mera sab se bara bhai jo k haal hi mein dubai gaya tha wahan se in ladaaiyon ke chaKKar Ki wajeh se aagaya... bht din guzrey aur phr EK DIN phr EK Din Hamaari naakami Shuru hui Jab Kainaat ne Mere Sab se Barey Bhai(Ahmad) Jo K Wasif Se Bhi Barey Thai Ko 100 Rupey K Mutalliq bata diya,, aur Kaha K Sahil Bhi mujh se pyaar karta hai usi se pooch lo.. Chanaanch mere Mutalliq bhi khaandan mein behes shuru ho gayi.. Aur mujhe bhi ghar se baahar niKalne par Mana Kar diya Gaya.. Mujhe maalum nahin K Kainaat ne aisa q kiya lekin bas Jo hua so hua... mein ne bhi kainat Ko sms karna bandh kar diya, aur usne ek din Wasif bhai k haathon Mere lye Wohi note jis par usne "S" Likha tha bhijwa diya... Jis Ko DeKh Kar Mujhe bht hairat hui... aur mere dil mein usKa Pyar Kam Hota gaya... 14th February 2010: Ladaaiyon ke isi silsiley mein Meri ammi aaj k din khaala K Ghar Gayein,, Baat Wasif bhai Ki Thi lKn Phas mein Gaya Jab Khaala ne Ammi Ko Bataya K sahil bhi hamaare ghar sms karta hai.. meri ammi roti hui ghar aayein aur mjh par apna saara ghussa utaar diya... aur mujhe bhi rula diya... Aur mujh par Museebaton k Pahaarh Tootne Lagey... Bil AaKhir Mein Ne Yeh Faisla Kar Diya k mein Kainaat ko Hamesha Hamesha K lye chor dunga,, aur is sawaal mein gum raha aakhir usne meri baat q nahin maani aur mere msgs sab ghar waalon ko q dikhaaye... jabke wo jaanti thi k Haalat Saazgaar nahin hain... Ek wo din hai aur ek aaj ka din hai k mein ne usey dekha taK nahin... aur ab Jab Sab Kuch bigarh chuKa Hai To wo mujhe phr se sms karne lagi hai,, lekin meri phr bhi himmat nahin hoti Apne ghar waalon ko bataane ki k Kahein wo aur bhi badnaam na Ho Jaaye... Wo Kya Gaya K Ronaq-e-dar-o-Deewar bhi gyi, EK ShaKhs Le Gaya Meri Dunya Samait Kar.....