Tuesday 26 December 2017

گول گپے والی

جہد مسلسل اور ہمت و حوصلے سے آگے بڑھنے کی لگن ہی میں انسانی زندگی کی بقاء کا راز مضمر ہے ۔ورنہ زندگی جمور کا شکار ہو کر اس ٹھہرے پانی کی مانند ہو جاتی ہے۔ جو لوگوں کے لیے تعفن اور بدبو کا باعث بنتا ہے جب کہ ہمت و حوصلے سے گزاری جانے والی زندگی اس رواں پانی کی مانند ہوتی جو دوسروں کے لیے راحت اور زندگی کی نوید ہوتاہے۔ ایسی ہی جواں ہمت محنتی اور سفید پوش خاتون سلمٰی ہے جس کی پیدائش ایک سفید پوش غریب گھرانے میں ہوئی تھی۔ لیکن مجبوریوں نے اُسے سڑک پر لا کھڑا کیا اپنا اور اپنی بچیوں کا پیٹ پالنے کے لیے وہ آج سڑک پر گول گپے کی ریڑھی لگاتی ہے۔ تایا کے گھر بیاہی جانے والی سلمٰی ، جھنگ سے اپنی تین بچیوں اور شوہر کے ساتھ ، اپنا 5 مرلے کا ذاتی گھر چھوڑ کر، لاہور جیسے بڑے شہر میں رہنے پر اس لیے مجبور ہے کہ شوہر کے بڑے بھائی نے مار پیٹ کر کے زبردستی گھر پر قبضہ کرنے کی کوشش کی ۔ سلمٰی کے شوہر نے مکان کا یہ حصّہ اپنے بھائی سے خریدا تھا۔لیکن وہ اس کی رجسٹری نہ کرا سکے۔بدنیت بھائی نے مکان دوبارہ ہتھیانا چاہااور نہ دینے پر اس نے سلمٰی کے شوہر کو مار ا پیٹا۔ سلمٰی اوران کی بچیوں کو کمرے میں کئی دن تک بند رکھا ۔ آخر کار سلمٰی کے ماں باپ نے اُسے کچھ پیسے دیے کہ وہ اپنے حصّے کی طرف دیوار کھڑی کر لے ۔لیکن جیسے ہی ایک دن وہ کسی رشتہ دار سے ملنے گئے تو واپسی پہ انھیں دروازے ٹوٹے ہوئے ملے اور گھر میں موجود زیورات اور قیمتی سامان حتیٰ کہ برتن تک چوری ہو چکے تھے۔ پویس تھانوں سے مایوس ہوکر مجبوراً اُنھوں نے اپنا گھر چھوڑ دیا ۔ اور لاہور کا رخ کیا۔ بچیوں کی تعلیم بھی منقطع ہو گئی۔ سلمٰی کا شوہر مُحمد عمر اِس سے قبل دال چاول کی ریڑھی لگاتا تھا۔ لاہور آکر بھی وہ کچھ عرصہ تو کام کرتا رہا۔ لیکن پھرکام چھوڑ کر گھر بیٹھ گیا۔ حتٰی کہ گھر میں فاقوں کی نوبت آگئی۔ اورایک دن دوبارہ ریڑھی لگانے کے لیے سودا لینے کاکہہ کر گیا اور واپس نہیں آیا۔ سلمٰی نے اُسے تلاش کرنے کی بہت کوشش کی لیکن آخرہمت ہارگئی ۔ وہ کہتی ہے، ” کیا کروں اُسے ڈھونڈکر جس کے ہونے نہ ہونے کا کوئی فائدہ نہیں؟ اس وقت میرے لیے صرف یہ بات اہم ہے کہ کسی طرح محنت کر کے اپنی بچیوں کو چھت اور دو وقت کی روٹی دے سکوں۔” ابتد اء میں سلمٰی کے والدین اور بہن بھائیوں نے اس کی کافی امداد کی مگرجس صاحب حیثیت بھائی کے بل بوتے پرسلمٰی کے گھر کا چولھا جل رہا تھا ،کے انتقال کے بعد مشکلات بڑھ گئیں۔ ” اتنی مہنگائی میں کوئی کب تک کسی کا بوجھ اُٹھا سکتا ہے۔ ہر انسان کو اپنے لیے خود ہی کچھ نہ کچھ کرنا پڑتا ہے۔بس یہی سوچ کر میں نے بھی ہمت کی۔” خودار اور محنتی سلمٰی کا پہلے ایک پیزا (Pizza) بنانے والی عورت کے ہاتھوں استحصال ہوتا رہا۔ سلمٰی سے فی پیزا کمیشن طے ہونے کے باوجوداُسے وہ اُجرت نہ ملی جس کی وہ حق دار تھی۔ لیکن سلمٰی نے ہمت نہ ہاری اور اپنا کام کرنے کا سوچ لیا۔پہلے بریانی بنا کر لوگوں کے گھروں اور دُکانوں میں سپلائی شروع کی۔ وہ علیٰ البصح اُٹھ کر بریانی تیار کرتی۔۔۔۔ اور میلوں پیدل چلتی۔۔۔۔۔یہ سوچ کر کہ وہ سب کچھ اپنی بچیوں کی خاطر کر رہی ہے، اس کی ہمت بندھی رہتی۔ لیکن گذشتہ سال ڈینگی بخار سلمٰی کے صبر کا ایک اور امتحان ثابت ہوا۔ بیماری نے جسم میں نقاہت پیدا کر دی۔ اب اس میں لمبے لمبے سفر کرنے کی سکت نہ رہی تھی۔ ایک بار پھر بہن بھائیوں کے در پر دستک دی تاکہ کچھ پیسے ادھارپکڑ کر کچھ اور کام کر سکے۔ سلمٰی گول گپے بنانا جانتی تھی۔ اس لیے گول گپے کی ریڑھی کا سوچ کرایک بارپھر ہمت کر لی۔ سچ ہے کہ خدا بھی انھی کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں۔ ایک خدا ترس شخص نے سلمٰی کو اپنی فالتو ریڑھی بغیر کسی معاوضے کے استعمال کے لیے دے دی کہ جب وہ اپنی ذاتی ریڑھی خرید لے تو اُس کی ریڑھی واپس کردے۔ اب سلمٰی گول گپے بنانے کی تیاری کے لیے صبح چار بجے اُٹھتی ہے۔ اور دن کے دو اڑھائی بجے تک اپنی گول گپے کی ریڑھی سجا کر ایک نئے عزم کے ساتھ نکلتی ہے۔لیکن کمزور ہونے کی وجہ سے وہ ذیادہ دور تک نہیں جاسکتی۔ گھر کے آس پاس ہی ایک درخت کے نیچے جہاں بجلی کا کھمبا بھی ہے ریڑھی لگا بیٹھتی ہیتاکہ دِن میں چھاؤں اوررات میں روشنی ملتی رہے۔۔۔ اور اگر بارش ہو جائے تو ریڑھی پر پلاسٹک کی چادر ڈال کر خود وہیں کسی درخت یا دیوار کی اوڑھ میں بھیگتی رہتی ہے۔ ۔۔۔ “کبھی بچیوں کی وجہ سے جلدی گھرجانا پڑ جائے تو کچھ خدا ترس لوگ ہیں جو ریڑھی اپنے احاطے کھڑی کر لیتے ہیں۔ لیکن اُسی محلّے کے کچھ لوگ تنگ بھی کرتے ہیں۔کہتے ہیں کہ ہمارے گھروں میں بیٹیاں ہیں اور یہاں قسم قسم کے لوگ اکٹھے ہوتے ہیں۔ رات دیر تک اس خوف سے نیند نہیں آتی کہ کل اگر کسی نے ریڑھی نہ لگانے دی توکہاں جاؤں گی؟ میں کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتی۔ لیکن کیا میں عزت سے چار پیسے کمانے کی بھی حق دار نہیں ؟دُنیا کا عجیب دستور ہے ۔ جو عورت ہاتھ پھیلاتی ہے اُسے دھتکارتے ہیں۔ لیکن جو محنت کرتی ہے ،اُسے کام نہیں کرنے دیتے۔” پہ در پہ مشکلات اور بیماری نے سلمٰی کے جسم میں نقاہت ضرور پیدا کر دی ہے مگر اُس کے حوصلے مضبوط ہیں۔ بیٹیوں کو پڑھانے کی حیثیت نہیں ، لیکن اراد ہ ضرور رکھتی ہے۔ بڑی بیٹی آ ٹھویں سے آگے پڑھ تو نہیں سکی مگر اب سلائی کڑھائی سیکھ رہی ہے تاکہ اپنی ماں کا ہاتھ بٹا سکے ۔ سلمٰی خود بھی بہت اچھی سلائی کڑھائی کر لیتی ہے۔ لیکن ابھی وہ اتنے پیسے نہیں جو ڑ سکی کہ سلائی مشین لے سکے ۔ اُس کے گھر میں ایک کارپیٹ (carpet)کا ٹکڑا ،ایک چارپائی ، پنکھااور استعمال کے چند برتن ہیں اوروہ بھی لوگوں کے دیے ہوئے ہیں۔ ڈیڑھ سو سے ڈھائی سو روپے دیہاڑی کمانے والی سلمٰی چار ہزار ماہوار مکان کا کرایہ اور دو ہزار بجلی اور گیس کا بل بھی دیتی ہے ۔جب کہ گھر میں ایک پنکھے اور ایک بلب کے سوا کچھ نہیں ہے۔ “میری بچیاں پڑھنا چاہتی ہیں ۔ کہتی ہیں پڑھ لکھ کر جہاز میں بیٹھ کر باہر جائیں گی۔ خواہشیں تو میری بھی ہیں۔۔۔۔ دل تو میرا بھی چاہتا ہے کہ اچھے صاف ستھرے کپڑے پہن کر گھر میںآرام کروں ۔ لیکن اب مجھے اپنا نہیں اپنی بچیوں کا سوچنا ہے ۔کاش میری بیٹیاں پڑھ لکھ کر کسی لائق بن جائیں تاکہ انہیں میری طرح گلیوں میں نہ پھرنا پڑے ۔میں رات رات بھر ان کے مستقبل کا سوچتی رہتی ہوں” سلمٰی کے لفظوں کی سچائی اُس کی آنکھوں سے جھلکتی ہے۔اُس کی اپنی خواہشیں اور تمنائیں کو کہیں بہت پیچھے رہ گئی ہیں۔ اب وہ صرف اپنی بیٹیوں کے لیے جی رہی ہے۔ پر ماں کی طرح وہ بھی اپنی بیٹیوں کو خوش اور کامیاب دیکھنا چاہتی ہے۔ اور ان کے لیے ایک ایسی زندگی کی متمنی ،جہاں وہ کسی کی محتاج نہ ہوں۔!!!

Tuesday 12 December 2017

شازیا کی سوتی جاگتی زندگی

تنگ گلیوں کے تاریک مکانوں میں بسنے والے فاقہ مستوں کی ناتواں امیدوں کی ناؤ،ان کے اپنے ہی آنسووؤں میں تیرتی ،ڈوبتی روشنیوں کے شہرکا پتہ پوچھتی ہے ۔اس ڈوبتے ابھر تے سفر میں کبھی کبھی ایسے بے بسوں کوبیچ منجھدار ڈوبنا پڑتا ہے اور کبھی کبھار ناتواں جسموں کی جہدِ مسلسل آس کی ناؤ میں چھید کرتی ہوئی کنارا ڈھونڈتی ہے۔شازیہ سرور تنگ وتاریک ماحول میں ایسے جگنو کی مانند ہے جس نے اپنی اولاد کوبے علمی کے اندھیروں میں گم نہیں ہونے دیا ۔(ادارہ)شازیہ سرور کاتعلق ایسے پسماندہ خاندان سے ہے ج ہاں بچوں کی تعلیم کو اہمیت ہی نہیں دی جاتی ۔گلیوں میں کھیل کود کربڑے ہونے والے لڑکوں کووالدین کمائی کا ذریعہ سمجھتے ہیں اور بیٹیاں ان کے سروں کا ایسا بوجھ ہوتی ہیں جنہیں وہ جلد از جلدسر سے اتار پھینکنا چاہتے ہیں۔ شازیہ نے ابھی عمر کی اٹھارویں سیڑھی پر قدم دھر ا ہی تھا کہ اس کے والدین نے اس کا بوجھ ڈولی میں ڈال کر محمد سرور کے سر ڈال دیا ۔ان کے تئیں سرکاری محکمے میں نائب قاصد کی نوکری کرنے والا یہ شخص اُ سے پھولوں کی سیج پر رکھنے والا تھا ۔اندھیرے گھروں میں بسنے والے والدین کے لئے’’پکی نوکری‘‘کی سند توجیسے خوش قسمتی کی علامت تھی۔ شازیہ کہتی ہے ’’ شادی کے کئی مہینوں کے بعد مجھے اپنے شوہر کی دوسری شادی کاعلم ہواتو میرے لئے حالات سے سمجھوتہ کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا ۔ سسرال بھی ملا تو ایسا ظالم کہ میری ساس اور نندذراذرا سی بات پر مجھے مارتیں اور شوہر سے بھی پٹواتیں۔ حالانکہ شادی کے فوراً بعد ہی بہو کی صورت میں ایک بغیر معاوضے کی ملازمہ گھر میں آچکی تھی۔کھانا پکانے سے لے کر صفائی ستھرائی تک سب میری ذمہ داری تھی لیکن پیٹ بھر کر تازہ کھانا میری قسمت میں نہیں تھا۔کھانا پکوانے کے بعد میری ساس نعمت خانے میں کھانا رکھ کراسے تالا لگادیتی مجھے باسی اور بعض اوقات بُساخراب کھانا نصیب ہوتا اور جب کبھی میری ساس زیادہ غصے میں ہوتی تو کچھ بھی کھانے کو نہ ملتا اس وقت میں پیٹ بھرنے کے لیے ’’چھان بورے ‘‘کی سوکھی روٹی پانی میں بھگو کر کھالیتی اور سوچتی کہ لوگ اتنے بھی ظالم ہو سکتے ہیں؟ میرے پانچوں بچے انہی حالات میں پیدا ہوئے۔میں نے ان حالات کا ذکرکبھی اپنے والدین سے نہیں کیا کیونکہ ابھی دوبیٹیوں کا بوجھ ان کے سر پہ تھا میں میکے جا کر بیٹھ جاتی تو بہنوں کی شادیاں ہونی مشکل ہوجاتیں۔ ایک مرتبہ میں نے کھانا نہ ملنے کا شکوہ اپنے شوہر سے کیا لیکن وہاں بھی میرے لئے ہمدردی کے دو بول نہ تھے بلکہ نہ بھرنے والے ایسے زخم تھے جو آج بھی تازہ ہیں ان کا خیال تھاکہ میں ان کی ماں بہنوں پر الزام لگارہی ہوں۔اپنی مارپیٹ کا ذکرمیں نے کبھی اپنی والدہ سے نہیں کیا۔ایک دفعہ ماں نے میرے بازوپر نیل کا نشان دیکھا تو میں نے بہانہ کردیا کہ میں غسلخانے میں گر گئی تھی۔خدا جانے مجھ میں اتنی سمجھ بوجھ کہاں سے آئی کہ خاوند اور سسرال کے ظلم کی خبر میکے والوں کو نہ ہونے دی ورنہ حالات بگڑ جاتے اور پھر کبھی ٹھیک نہ ہوتے یوں ہمارے معاشرے میں عورت سسرال میں رہنے کے قابل رہتی ہے اور نہ میکے میں۔کہتے ہیں ناں اللہ اپنے بندوں کو تنہا نہیں چھوڑتاآخر اسے بھی مجھ پر رحم آگیا میرے شوہر نے مجھے اور اپنے گھر والوں کو کئی حوالوں سے آزمایا تو اسے احساس ہو گیا کہ اس کے گھر والے ظلم کرتے ہیں۔ اس کی پہلی بیوی بھی بے قصور تھی سرور نے اپنی والدہ کے کہنے پراسے طلاق دی تھی۔ احساسِ ندامت سے اس نے مجھ سے معافی مانگی اورمرتے دم تک اپنے عہد پر قائم رہا۔ شادی کے بارہ برس بعد محمد سرور کا انتقال ہوگیا ۔آج اسے فو ت ہوئے پانچ برس ہونے کو آئے ہیں زندگی کے آخری تین برس اس نے بیماری میں کاٹے۔وہ شوگر اور دل کامریض تھااور اپنے فرا ئضِ منصبی انجام دینے کے قابل نہ رہاتھاپھر بھی اس کے افسران کی ہمدردیاں اس کے ساتھ تھیں اور وہ ہر طرح سے اس کا خیال رکھتے تھے۔ محمدسرور کی بیماری کی نوعیت ہی کچھ ایسی تھی کہ ہر ماہ تین، چارہزار روپے اس کے علاج معالجے پر ہی اٹھ جاتے،پھر والدین اور بیوی بچوں کی ذمہ داریاں الگ،فاقوں سے بچنے کے لئے شازیہ نے غمِ روزگار میں گھر سے باہر قدم نکالا وہ کہتی ہے۔’’میں نے اپنی زندگی میں کبھی نوکری کے لئے گھر سے قدم نہیں نکالا تھا لیکن اب میرے بچوں کی بھوک کا مسئلہ تھاایسے میں کسی گھر میں کھاناپکانے کا کام ملا تووہ بھی کیا، فیکٹری سے سلائی اوراستری کرنے کاکام ملتا تو وہ بھی کرتی ۔میں نے اپنی ضرورتوں کے لئے کبھی کسی بہن بھائی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا اور پھرہم ایسے لوگوں کی ضرورتیں ہوتی ہی کیا ہیں دو وقت کی روٹی اورتن ڈھانپنے کو معمولی لباس اور چھوٹی موٹی بیماریوں کوتوہم لوگ کچھ سمجھتے ہی نہیں ۔مجھ ایسی کم تعلیم یافتہ عورتوں کو ایسی چھوٹی موٹی نوکریاں بھی مل جائیں تو غنیمت!!! اس لئے میں نے تہیہ کر لیا کہ اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم ضرور دلواؤں گی کیونکہ اس کے بغیر زندگی ذلتوں کے سوا کچھ نہیں۔میں محنت سے کبھی نہیں گھبرائی۔میری جدوجہد اور آزمائش کا آغاز تو شوہر کی زندگی میں ہی ہوگیا تھالیکن اس کے مرنے کے بعدتو جیسے مصیبتوں کے پہاڑہی ٹوٹ پڑے۔کم عمری،ناسمجھی،پانچ بچوں کا ساتھ اور لوگوں کی الٹی سیدھی باتیں ،دن رات رونے اورفاقوں سے میری طبیعت خراب رہنے لگی!!! سسرال والوں کی عنائت،کہ انہوں نے گھر سے نکال دیا میں اپنے والدین کے گھرکیا آئی کہ سگے بھائی بھی بوجھ سمجھنے لگے!! بس سب سے چھوٹے بھائی نے قدم قدم پر میرا ساتھ دیا اور اب بھی میرے ساتھ ہے۔لیکن اس بیچارے کے نصیب میں بھی کبھی نوکری ہے اور کبھی بے روزگاری۔ ایسے حالات میں جیسے ہی محکمے کی طرف سے میرے مرحوم شوہرکے فنڈز وغیرہ ملے ،سسرال کے ساتھ ساتھ میکے والے بھی اس رقم کو ہتھیانے کی کوششیں کرنے لگے۔پیسہ پاس ہو تو سب آگے پیچھے ہونے لگتے ہیں۔میرا ارادہ تھا کہ والدین کے ساتھ رہنے کی بجائے گروی پر الگ گھر لے لوں گی۔میں مکان کی تلاش میں تھی کہ میرے ایک قریبی عزیز نے (جو کہ میری بھابھی کا بھائی بھی ہے)مشورہ دیاکہ میں یہ رقم اس کے کاروبار میں لگا دوں اس طرح ہر مہینے مجھے منافع بھی ملتا رہے گا اور میری اصل رقم بھی محفوظ رہے گی۔ میں نے اپنے بھائی کے مشورے سے اڑھائی لاکھ روپے کی رقم اسے دے دی وہ یہ رقم لے کر کراچی چلا گیا اور آج تک روپوش ہے ۔اب میں نے ایک گھر کی بالائی کی منزل کاایک کمرہ کرایے پرلیا ہوا ہے جس کے صحن کا کوئی دروازہ نہیں!! سردیوں کے موسم میں تو جیسے تیسے گزارا ہو جاتا ہے لیکن جب گرمیاں آتی ہیں اور آسمان سے آگ برسنا شروع ہوتی ہے تو صحن میں سونے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا ۔ میں اور بچے صحن میں سوتے ہیں لیکن میں اپنی بچیوں کی حفاظت کی وجہ سے ساری رات سوتے جاگتے گزارتی ہوں کیونکہ ساتھ ہی دوسری چھت مالک مکان کی ہے درمیان میں کوئی دروازہ یا دیوار نہیں !! اس گھر کے لوگ بھی اسی چھت پر سوتے ہیں۔‘‘خودداراورکڑی آزمائشوں سے دوچارشازیہ اس وقت اپنے شوہر کی جگہ اسی محکمے میں بطور نائب قاصداسی طرح اپنی ڈیوٹی نبھا رہی ہے جس طرح مرد چپڑاسی کام کرتے ہیں ۔چائے بنانا،کھانا سرو کرنا، فائلیں ایک جگہ سے دوسری جگہ لے کر جانا اور اسی طرح کے تمام کام وہ سر جھکائے انتہائی مستعدی سے سرانجام دیتی نظر آتی ہے ۔ وہ کہتی ہے ’’ ڈیڑھ سال کی دربدری اور دھکے کھانے کے بعد مجھے یہ ملازمت ملی۔میں اللہ تعالیٰ کاشکر اداکرنے کے بعدان تمام لوگوں کی بھی مشکور ہوں جو میری ملازمت کا وسیلہ بنے لیکن جن حالات سے میں گزری ہوں اور گزر رہی ہوںیہ دکھ میرے لئے اذیت ناک ہے!! کاش میں زیادہ پڑھی لکھی ہوتی‘‘یہ کہتے ہوئے شازیہ کی آنکھوں کے آنسواور لہجے کا درد وہ کہانی بیان کرگئے جووہ زبان سے ادا نہیں کر سکتی تھی۔ شازیہ اب بالکل خالی ہاتھ ہے ۔اپنی تنخواہ،شوہر کی پنشن اوروِڈو فنڈ(Widow Fund )سب ملا کر شازیہ کے پاس بس اتنے پیسے ہوتے ہیں،کہ وہ مکان کا کرایہ،بل اور بچوں کوروکھی سوکھی کھلاسکے۔شازیہ کے دوبیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔ زردرو، اور کمزور جسموں والے بچے ماں ہی کی طرح صابروشاکر ،لیکن ذہین اور لائق ہیں وہ ہر کلاس میں اچھے نمبروں میں کامیاب ہوتے ہیں۔شازیہ کہتی ہے ۔’’میری غیر موجودگی میں بچے گھر ہی میں ہوتے ہیں جب تک میں گھر نہ آجاؤں میرا بڑا بیٹاچھوٹی بہنوں اوربھائی کو تنہا چھوڑ کر کہیں نہیں جاتا۔یہ اللہ کا خاص کرم ہے کہ میرے بچے میری طرح صبر کر نے والے اور خوددارہیں۔اگر گھر میں کھانے کو کچھ نہ ہو تووہ کبھی کسی سے نہیں مانگتے حالانکہ بالکل قریب ہی میرے والداور بھائیوں کا گھر ہے۔ میرے گھر لوٹنے تک بچے بھوکے بیٹھے رہتے ہیں پھر میں انہیں جو بھی بنا کر دے دوں وہ خاموشی سے کھالیتے ہیں۔ میں سمجھتی ہوں کہ یہ اللہ کا مجھ پر خاص کرم ہے کہ میرے بچے بہت فرمانبردار اور پڑھنے کا شوق رکھتے ہیں بس یہی میری کمائی ،میرا حوصلہ اور میری محنت ہے۔ ‘‘شازیہ کے لئے ماں کا بچھڑ جانا بہت بڑا صدمہ ہے شاید اسی لئے وہ اپنے معذور والد کی لاٹھی بننا چاہتی ہے اس کے والد ایک پرائیویٹ ادارے میں سیکیورٹی گارڈ تھے ڈاکو ؤں سے مقابلے کے دوران انہیں ٹانگ پر گولی لگ گئی شازیہ کے بھائی جانتے تھے کہ بہن کے پاس شوہر کے فنڈز میں سے بچی ہوئی رقم موجود ہے لہٰذا انہوں نے باپ کا علاج کروانے کی ذمہ داری بھی بہن سر پہ ڈال دی۔شازیہ کہتی ہے ’’میں اپنے باپ کو مرتا نہیں دیکھ سکتی تھی۔ آپریشن سے ان کی ٹانگ کی گولی تو نکل گئی لیکن عمر بھر کے لیے معذور ہوگئے ویل چیئر کے بغیرکہیں آجا نہیں سکتے۔ مجھے دکھ اس بات کا ہے کہ میرے بھائی جنہوں نے میرا خرچہ اٹھانے سے انکار کردیا تھا اب میری تنخواہ کے انتظار میں رہتے ہیں میں کبھی اپنے لیے ادھار سودا نہیں خریدتی لیکن وہ دوکانوں سے ادھار لیتے ہیں اور مجھے ان کے حساب چکانے پڑتے ہیں‘‘۔ صبح سے شام تک محکمانہ فرائض ادا کرنے کے بعدشازیہ کپڑوں کی فیکٹری سے روزانہ اجرت پر کپڑے استری کرنے کے لیے لاتی ہے ان پیسوں سے وہ اپنے اخراجات پورے کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے بھائیوں اور ایک بہن کی بھی مدد کرتی ہے ۔اس کے بھائی اکثربے روزگار رہتے ہیں اور بہن کا شوہر بھی سرکاری نوکری سے معطل ہے۔ خدا کی رضا پر راضی شازیہ نے اپنے والدین کی بہت خدمت کی اور کر بھی رہی ہے ۔شازیہ کا کہنا ہے ’’جہاں تک ہوسکتا ہے میں اپنے رشتے داروں سے بنا کر رکھتی ہوں کوئی غلط بات کہہ بھی دے تو جواب نہیں دے سکتی۔ میرا بیٹا میری اس عادت سے بہت نالاں ہے وہ کہتا ہے ’’امی مجھے بولنے دیا کریں میں آپ کی بے عزتی برداشت نہیں کر سکتا‘‘لیکن میں اسے خاموش کروا دیتی ہوں کہ سب سے لڑ جھگڑ کرکہاں جائیں گے؟ سر پہ ہاتھ رکھنے والا کوئی تو ہو!! پھر بھی میرے قریبی رشتے دار مجھے کچوکے لگانے سے باز نہیں آتے کہ میں نے اپنے یتیم بچوں کاحق مار کران کے باپ کے پیسوں سے اپنے ماں باپ کا علاج کروایا ۔ میں نے اللہ کی خوشنودی کے لئے والدین کی خدمت کی ، میں جانتی ہوں ماں باپ کی خدمت عین عبادت ہے لیکن آج تک یہ سمجھ نہیں سکی کہ آخر مجھ سے غلط کیا ہوا جس کی سزا اک جہدِ مسلسل کی طرح مجھ پر عذاب کی طرح نازل ہے۔

Friday 1 December 2017

HEART TUCHING STORY )

ایک چھوٹا سا بورڈ ریڑھی کی چھت سے لٹک رہا تھا، اس پر موٹے مارکر سے لکھا ہوا تھا، ''گھر میں کوئی نہیں ھے، میری بوڑھی ماں فالج زدہ ہے، مجھے تھوڑی تھوڑی دیر بعد انهیں کھانا اور اتنی ہی مرتبه حاجت کرانی پڑتی ہے، اگر آپ کو جلدی ھے تو اپنی مرضی سے فروٹ تول لیں اور پیسے کونے پر کر ریگزین کےگتے کے نیچے رکھ دیجیے . ساتھ ھی ریٹ بھی لکھے ھوۓ هیں اور اگر آپ کے پاس پیسے نه ھوں، تو میری طرف سے لے لینا, اجازت ہے! . وللہ خیرالرازقین! ادھر اُدھر دیکھا، پاس پڑے ترازو میں دو کلو سیب تولے، درجن کیلے لیے، شاپر میں ڈالے، پرائس لسٹ سے قیمت دیکھی، پیسے نکال کر ریڑھی کے پھٹے کے گتے والے کونے کو اٹھایا، وہاں سو پچاس دس دس کے نوٹ پڑے تھی، میں نے پیسے اسی میں رکھ کر اسے ڈھک دیا، ادھر اُدھر دیکھا کہ شاید کوئی میری طرف متوجہ ہو، اور شاپر اٹھا کر واپس فلیٹ پر آگیا. ، افطار کے بعد میں اور بھائی ادھر گئے. دیکھا اک باریش آدمی ، داڑھی آدھی کالی آدھی سفید ، ہلکے کریم کلر کرتے شلوار میں ریڑھی کو دھکا لگا کر بس جانے ہی والا تھا وه ھمیں دیکھکر مسکرایا اور بولا" صاحب ! پھل تو ختم ہوگیا نام پوچھا تو بولا خادم حسین پھر ہم سامنے ڈھابے پہ بیٹھے تھے. چائے آئی، کہنے لگا "پچھلے تین سال سے اماں بستر پر ھے، کچھ نفسیاتی سی بھی ہوگئی ہے، اور اب تو فالج بھی ہوگیا ہے، میرا کوئی بال بچہ نہیں، بیوی مر گئی ہے، صرف میں ھوں اور میری اماں. اماں کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نهیں اس لئے مجھے ھروقت اماں کا خیال رکھنا پڑتا ھے" اک دن میں نے اماں کے پاؤں دباتے ھوۓ بڑی نرمی لجالت سے کہا، "اماں! تیری تیمار داری کو تو بڑا جی کرتا ہے. پر جیب میں کچھ نھیں تو مجھے کمرے سے ہلنے نہیں دیتی، کہتی ہے تو جاتا ہے تو جی گھبراتا ہے، تو ہی بتا میں کیا کروں؟ " اب کیا غیب سے کھانا اترے گا ؟ نہ میں بنی اسرائیل کا جنا ہوں نہ تو موسیٰ کی ماں ہے، کیا کروں! یه سن کر اماں نے ہانپتے کانپتے اٹھنے کی کوشش کی, میں نے تکیہ اونچا کر کے اسکو بٹھایا ,ٹیک لگوائی، انھوں نے جھریوں والا چھره اٹھایا اپنے کمزور ہاتھوں کا پیالا بنا یا، اور نه جانے رب العالمین سے کیا بات کی، پهر بولی " تو ریڑھی وہی چھوڑ آیا کر، تیرا رزق تجھے اسی کمرے میں بیٹھ کر ملے گا" ، میں نے کہا " اماں کیا بات کرتی ھے, وہاں چھوڑ آؤں گا تو کوئی چور اچکا سب کچھ لے جاۓ گا، آجکل کون لحاظ کرتا ھے؟ بنا مالک کے کون خریدار آئے گا؟" کہنے لگی "تو فجر کو ریڑھی پھلوں سے بھر کرچھوڑ کر آجا بس، زیادہ بک بک نیئں کر، شام کو خالی لے آیا کر، اگر تیرا روپیہ گیا تو یه خالدہ ثریا الله سے پائی پائی وصول دیگی". "ڈھائی سال ہوگئے ہیں بھائی!صبح ریڑھی لگا جاتا ہوں. شام کو لے جاتا ہوں، لوگ پیسے رکھ جاتے پھل لے جاتے، دھیلا اوپر نیچے نہیں ہوتا، بلکہ کچھ تو زیادہ رکھ جاتے، اکثر تخمینہ نفع لاگت سے تین چار سو اوپر ہی جا نکلتاھے، کبھی کوئی اماں کے لیے پھول رکھ جاتا ہے، کبھی کوئی اور چیز! پرسوں ایک پڑھی لکھی بچی پلاؤ بنا کر رکھ گئی، نوٹ لکھکر رکھ گئی "اماں کے لیے"،. اک ڈاکٹر کا گزر ہوا، وہ اپنا کارڈ چھوڑ گیا. پشت پہ لکھ گیا. "انکل! اماں کی طبیعت نہ سنبھلے تو مجھے فون کرنا، میں گھر سے پک کر لوں گا" کسی حاجی صاحب کا گزر ہوا تو عجوہ کجھور کا پیکٹ چھوڑ گیا، کوئی جوڑا شاپنگ کرکے گزرا تو فروٹ لیتے ہوئے اماں کے لیے سوٹ رکھ گیا، روزانہ ایسا کچھ نہ کچھ میرے رزق کے ساتھ موجود ہوتا ہے، نہ اماں ہلنے دیتی ہے نہ اللہ رکنے دیتا ہے. اماں تو کہتی تیرا پھل بیچنے کے لئے، اللہ خود نیچے اتر آتا ہے، اور بیچ باچ جاتا ہے، بھائی! وه سوھنا رب اک تو رازق ھے، اوپر سے ریٹیلر بھی ھے، اللہ اللہ آخر میں مجھے اپنے بچوں سے کھنا ھے اگر آپ فارغ ھوں اور اپنے والدین کو کام کرتے دیکھیں تو فورأ اٹھکر انکی مدد کریں اور انهیں کھیں "امی جان! ابا جان! "لائیے میں آپکی مدد کرتا / کرتی ھوں" پهر دیکهیں دنیا و آخرت کی کامیابیاں کیسے تمھارے قدم چومتی ھیں! انشاءالله! ایک شئیر کر دیں شاید آپ کے ایک شیئر سے کسی کا بھلا ہو جاۓ